Tasaneef huzur tajusharia ka tajziyati mutalia

#تصانیف_حضور_تاج_الشریعہ_کا_تجزیاتی_مطالعہ

(نوٹ: مضمون کا دوسرا حصہ #تصانیف_کا_تجزیہ البیلا اور اپنی طرز کا انوکھا ہے۔ انصار)
حضرت علامہ مفتی محمد اسماعیل عرف اختر رضا خان بریلوی (علیہ الرحمہ) علمی دنیا کا بڑا نام ہے، جو ”تاج الشریعہ“ اور ”ازہری میاں“ کے القاب سے دنیا بھر میں یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ کی ذات ہمہ جہت اور شخصیت گو نا گوں خوبیوں سے تعبیر تھی۔ آپ ”ذات میں انجمن ہونے“ کے محاورے کا سراپا آئنہ تھے۔ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ اہل سنت کی اتھارتی شخصیت کے مالک تھے۔ وہ عالمی مبلغ اسلام، عصر حاضر کے بڑے مرشد طریقت، قاضی اسلام، عظیم مصلح، نقاد، بہترین خطیب، چہار لسانی ادیب، فطری شاعر، عاشق رسول (ﷺ) ہونے کے ساتھ ساتھ کامیاب مصنف بھی تھے۔
علامہ ازہری میاں علیہ الرحمہ کی تمام کتابوں میں اختصار و جامعیت، سلاست و روانی، دل کشی و جاذبیت اور تحقیق کی ساری خوبیاں اعلا درجے میں پائی جاتی ہیں۔ فصاحت کا یہ عالم کہ مشمولات کا لفظ لفظ موتی ہوتا ہے، جس فن یا عنوان پر لکھتے ہیں، اس کا حق ادا کر دیتے ہیں۔ آپ کی جاذب اور دل ربا سیرت و شخصیت اور محققانہ و عالمانہ تصانیف، مولفات اور تراجم نے نسل نو پر ایک اثر مرتب کیا ہے۔
ان کے خاندان کی ایک خاصیت رہی ہے کہ پچھلی دو صدیوں سے یہ سب سے ممتاز حیثیت کا حامل رہا ہے_ امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ وقت کے سب سے عظیم فقیہ اور عالم تھے؛ امام احمد رضا خان کے صاحب زادے اور تاج الشریعہ کے مرشد و مربی کا لقب ہی ”مفتی اعظم عالم“ تھا؛ جارڈن کی انسانی اعداد شمار کے تعلق سے مشہور تنظیم ”Royal Islamic Strategic Studies Centre” نے حضور ازہری میاں علیہ الرحمہ کو موجودہ وقت کا سب سے بڑا مفتی اور دنیا کا بائیسواں با اثر مسلم شخصیت قرار دیا تھا اور صاف لفظوں میں لکھا تھا: ”South Asia (دکھن ایشیا) میں ان کے فالوورس (متبعین) کی تعداد 200 ملین [20 کڑوڑ] سے زائد ہیں“۔ مشہور ندوی عالم اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر ہارون ندوی نے اپنے چینل پر اس بات کا بر ملا اعتراف کیا ہے کہ: ”حضور تاج الشریعہ اعلٰی حضرت کے بعد دنیا کے دوسرے سب سے زیادہ علم رکھنے والے شخص تھے“۔
فقہ و افتا، تدریس اور بیعت و ارشاد آپ کے اصل میدان تھے۔ آپ نے عمر کا ابتدائی حصہ تحصیل علم میں صرف کیا، اخیر میں روحانیات غالب رہی۔ جو کچھ لکھے ضرورتا لکھے، زیادہ تر ایک خاص مدت میں لکھے؛ لیکن ایسا لکھے کہ پھر ضرورت تشنہ کام نہ رہی۔ وہ ایک مصنف تھے، کتابوں کی فہرست بڑھا کر دھونس جمانے والے لکھاری نہیں تھے، وارث علوم اعلٰی حضرت تھے۔ انھوں نے جو بھی لکھا، لاجواب لکھا۔

#تصانیف_کا_تجزیاتی_مطالعہ:

”ہجرت رسول ﷺ“ لکھ کر ہمیں بتایا کہ اسلام اور فروغ اسلام میں واقعہ ہجرت کا کتنا بڑا کردار ہے، کیسے بےسر و سامان مہاجرین دنیا میں سب سے بڑا انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوگئے!؛ ”جشن عید میلاد النبی ﷺ“ میں سیرت رسول ﷺ اور تاریخ اسلام پر دقت نظر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے؛ ”نغمات اختر“ آج بھی عشاق رسول ﷺ کو راحت و سکون کا سامنا فراہم کر رہی ہے، سوز و گداز عطا کر رہی ہے، آداب عشق سکھا رہی ہے؛ ”سنو! چپ رہو“ سے قرآن کریم، تلاوت کلام پاک کی عظمت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ تلاوت قرآن کریم کے وقت خاموشی اختیار کرنا اور دوران تلاوت زبان سے کوئی بھی لفظ نہ نکالنا ضروری ہے؛ ”کیا دین کی مہم پوری ہو چکی؟“ اور ”آثار قیامت“ لکھ کر عوام کو خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کی، ان کی کوتاہیوں پر مہمیز کیے؛ ”تصویروں کا شرعی حکم“ تالیف فرما کر مسلمانوں کو بتایا کہ جاندار کی دستی، عکسی، معظم و غیر معظم ہر طرح کی تصویر حرام ہے، پھر اس فتوے پر ایسی استقامت برتی کہ اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے اور آج تک محسوس ہو رہے ہیں۔
”الحق المبين“ لکھ کر فاضل بریلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر کیے گئے چند جاہلانہ اعتراضات کا ایسا علمی اور دندان شکن جواب دیا کہ مخالفین اپنا سا منہ لے کے رہ گئے؛ ”ٹائی کا مسئلہ“ لکھ کر یہ بتایا کہ ”ٹائی“ صلیب کی علامت (The sign of the Cross) اور عیسائیوں کا مذہبی شعار ہے، اسلام میں اس کے جواز کی کوئی گنجایش موجود نہیں۔ اس فتوے کا یہ اثر ہوا کہ بڑے بڑوں نے گلوں سے پھانسی کا یہ پھندا اتار پھینکا۔ اسی طرح ”الصحابة نجوم الاهتداء“ اور ”تحقيق انَّّ ابا سيّدناابراهيم عليه السلام (تارح) لا (آزرَ)“تصنیف فرمائی تو دنیا کی سب سے بڑی مذہبی یونیورسٹی ”جامعۃ الازہر“ کے کئی اساتذہ اپنی موقف تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے؛ قصیدہ بردہ شریف کی شرح لکھنے پر آئے تو ”الفردة في شرح البردة“ لکھ کر جدید عربی ادب کی بکھڑی زلفیں سنوار دیں، نکات کے ایسے سوتے پھوٹے کہ علماے عرب، حیرت سے دانتوں تلے انگلیاں دبا کر رہ گئے؛ مداریوں کی رد میں فتوٰی لکھا تو ان کے گندے اور کفریہ عقائد اتنے محققانہ انداز میں طشت از بام کیے کہ پھر انہیں کہیں سر چھپانے کی جگہ نہ ملی، انہیں پھر کوئی منہ نہ لگایا؛
حضرت ازہری میاں علیہ الرحمہ کی ”اسمائے سورہ فاتحہ کی وجہ تسمیہ“ نے یہ ثابت کر دیا کہ موجودہ وقت میں، فقہ کے ساتھ ساتھ علم تفسیر کا تاج بھی آپ ہی کے سر جاتا ہے۔ میں نے علامہ سید محمد طنطاوی (سابق شیخ جامعۃ الازہر، مصر) کی ”التفسير الوسيط“ پڑھی ہے، اسمائے سورہ فاتحہ اور ان کے وجوہ تسمیہ کو پہلے دوسرے صفحے میں ہی ذکر فرمایا ہے۔ میں وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ اس مقام پر ان کا قد تاج الشریعہ سے کہیں بھی اونچا نہیں ہے۔ آپ نے ”القول الفائق “ لکھ کر یہ بتایا کہ فاسق بالخصوص بے ریش کی اقتدا سے اپنی نمازیں کیسے بچائی جائیں؛ ”ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن“ لکھا تو ایسی منفرد تحقیق پیش فرمائی کہ جواز کے کئی قائل آپ کی شاہ کار تحقیق پڑھ کر اپنے سابقہ موقف سے رجوع کر لیے؛ ”دفاع کنز الایمان“ تصنیف فرما کر اعلی حضرت کے ترجمہ قرآن کا شاندار دفاع کیا اور ایسا کیا کہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہی؛ ”شدّ المشارع “ لکھ کر ایک با طل نظریہ (اسلام کو شارع علیہ الصلٰوۃ و السلام کی ضرورت نہیں) کی دھجیاں اڑا دی؛ ”نهاية الزين في التخفيف عن ابي لهب يوم الاثنين“ لکھ کر ثابت کیا کہ یہ سچ ہے کہ ولادت رسول ﷺ کی خبر سن کر اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کرنے کی برکت سے پیر کے دن ابولہب کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے؛ ”تین طلاق کا شرعی حکم“ لکھ کر ایک نششت میں تین طلاق کے وقوع کے مخالفین کو دندان شکن جواب دیا۔
ایشیا کے عظیم مصنف اور اسلامی اسکالر، حضرت امام احمد رضا خان بریلوی (علیہ الرحمہ) کی مفید عام اور علمی کتابوں کا فصیح ترجمہ کر کے چہار دانگ میں پھیلایا۔ ترجمہ نگاری کے فن میں مہارت کو دیکھنے کے لئے نمونے میں بس ”المعتقد الممتقد“ ہی کافی ہے۔
جنھیں حضور تاج الشریعہ کے علم و فن، گہرائی و گیرائی، دقت نظر، کمال احتیاط اور زبان و بیان کی سلاست و روانی کا کچھ اندازہ لگانا ہو، وہ شایع شدہ فتاوی پڑھے، خود کو کاسہ لے کر، علم و معرفت کے ایک سمندر کے کنارے کھڑے ہوئے محوس کریں گے۔
یہ تو نثر تھا، نظم کی بات کریں تو اس میدان کے بھی شہسوار نظر آتے ہیں۔ اس عنوان پر ادبی بحث ہوتے رہتے ہیں کہ شعر کہنا مشکل ہے یا نثر نگاری؟، لیکن اس بات پر سبھی متفق نظر آتے ہیں کہ دونوں میں کمال حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ علامہ اختر رضا بریلوی علیہ الرحمہ نے دونوں میں نہ صرف کمال حاصل کیا؛ بلکہ اسے بخوبی برتا بھی ہے۔
ان کا ہم سے جدا ہوئے دو سال کا عرصہ بیت گیا، خلا اب بھی باقی ہے، کسک تازہ ہے، دنیا ابھی بھی کوئی بدل پیش نہیں کر سکی ہے۔ ایسی ہمہ جہت شخصیات تو برسوں میں جنم لیتی ہیں۔
؎
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
اور
آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے
(کچھ شیرینی کے اضافے کے ساتھ قند مکرر)
✍🏻 #انصار_احمد_مصباحی،

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے