Tajusharia Akhtar Raza Khaan Ek Nabigah-e-roozgar shakhsiyat

*فقیہ اسلام تاج الشریعہ مفتی اختررضا خان قادری ایک نابغۂ روزگار شخصیت*

*مولانا محمد رضی احمد منظری پورنوی*

Mdraziahmad82011@gmail.com
""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""
ملک ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے شہر بریلی شریف میں خانواۂ رضا ایک مشہورومعروف خانوادہ ہے جو تقریباّ دو صدیوں سے اپنی دینی و ملی،تعلیمی وتعمیری،تبلیغی و تصنیفی اور تالیفی خدمات کے ذریعہ امت مسلمہ کی رہبری و رہنمائی کافریضہ انجام دے رہا ہے،اس مقدس خانوادہ میں بہت سارے ایسے لعل و گوہر پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی علمی جلالت شان سے عالم اسلام کوفیض یاب کیا،اس خانوادے کا ہر فرد علم وعمل،زہدوتقویٰ،عفت وطہارت،حق گوئی و بے باکی میں امتیازی شان کا حامل رہاہے،اہل سنّت کا ہر عالم اور شیخ اس بات کا اعتراف کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ ہرمیدان میں مثل مثیل اگر کہیں ہے تو وہ اس خانوادہ میں موجود ہے ،اسی خانواد ہ کے فرد فرید میں ایک نام قاضی القضاۃ فی الہند تاج الشریعہ علامہ مفتی اختر رضا خان قادری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے، آپ اپنے اندر آسمان کی بلندی،آفاق کی وسعت اور سمندر کی پنہائیاں سمیٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔علم ومعرفت،فکرو آگہی،فضل و تقوی سلوک و تصوف،احسان و مروت،اخلاص و یقین،اتباع شریعت وعشق رسالت کی عملی تصویر،فقہ وتفسیر،تحقیق وتنقید،دعوت وتبلیغ،زبان وادب،شعروشاعری اور علوم عقلیہ و نقلیہ پر مہارت آپ کی باوقار زندگی کے وہ عناوین ہیں کہ ہر عنوان مستقل ایک کتاب کا متقاضی ہے جسے خاص فضل الٰہی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے،آپ کے درس وتدریس سے لے کر دعوت وتبلیغ اور ارشاد و ہدایت کا یہ سفر نہایت ہی قیمتی اور قابل تحسین وافتخار ہے، دنیا آپ کو مسلک اعلٰحضرت کا روح رواں اورپاسبان و نگہبان کہتی ہے جن کے دست مقدس سے فیضان رضویت کا باڑا بٹتا ہے جو گلشن رضا کے باغبان ہیں۔
*ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت بریلی شریف کے محلہ سوداگران میں ۱۴؍ ذیقعدہ ۱۳۶۱؁ھ ۲۳؍نومبر ۱۹۴۲ء؁ بروز منگل کو ہوئی۔
*نام وتخلص:* خاندانی دستور کے مطابق آپ کا پیدائشی نام محمد رکھا گیا ،اسی نام پر آپ کا عقیقہ ہوا،چونکہ والد کا نام ابراہیم رضا ہے اس نسبت سے آپ کا نام’’ اسمٰعیل رضا ‘‘تجویز ہوا، عرفی نام اختر رضا ہے اور اسی نام سے مشہور و معروف ہیں ،’’اختر‘‘ تخلص ہے ،آپ مشربا قادری اور علماّازہری ہیں، آپ افغانی النسل ہیں۔
*شجرۂ نسب:* آپ کا شجرۂ نسب اس طرح ہے :تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان بن مولانا ابراہیم رضا خان بن حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان بن امام احمد رضا خان بن رئیس الاتقیا مولانا نقی علی خان بن امام العلما مولانا رضا علی خان رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
*القابات:* آپ تاج الشریعہ، فخر ازہر،قاضی القضاۃ فی الہند،جانشین حضور مفتی اعظم ہند،وارث علوم مجدد اعظم،سرج العرفاء،فقیہ اعظم ہندوستان،شیخ الاسلام والمسلمین وغیرہ القابات سے جانے جاتے ہیں۔
*تعلیم وتربیت:* آپ کی پرورش مشفق والدین اور نانا نانی کے سایۂ عاطفت میں ہوئی، آپ کی کتاب زیست ایسے ماحول اور ایسی تہذیب وتمدن میں کھلی جو چو طرفہ خالص اسلامی شرعی تھا کیونکہ آپ ایک نہایت عظیم گھرانے سے تھے اس لیے آپ کی نگاہ نے ہر وقت وہ ماحول دیکھا جو شرعی تھا، والد ماجد نے روحانی وجسمانی اورظاہری و باطنی ہر طرح کی تربیت فرمائی آپ نے ناظرۂ قرآن والدہ ماجدسے اور ابتدائی کتب خود والد گرامی سے پڑھی ،بعدہ دارالعلوم منظر اسلام میںداخلہ کرادیا گیا محنت ولگن کے ساتھ حصول علم میں لگے رہے حتیٰ کہ مروجہ درس نظامی کی تکمیل یہیں سے کی،آپ کو شروع سے ہی مطالعہ کتب کا بے حد شوق رہا،آپ۱۹۵۲؁ء میں فضل الرحمٰن اسلامیہ انٹر کالج بریلی میں داخلہ لیکر ریاضی،ہندی،سنسکرت وغیرہ کی بھی تعلیم حاصل کی،اللہ تعالیٰ نے آپ کو حیرت انگیز ذہانت و فطانت سے سرفراز فرمایا تھا دوران تعلیم ہی آپ کے اندر عربی اور انگریزی بولنے کی صلاحیت پیدا ہو چکی تھی،فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالتواب مصری جو کہ منظر اسلام کے استاد تھے عربی ادب کی تعلیم دینے پر معمور تھے آپ روزانہ علی الصبح انہیں ہندی اردو انگلش اخبارات کو عربی میں ٹرانسلیشن کرکے سنایا کر تے تھے ،انہیں صلاحیتوں کے پیش نظر شیخ مصری نے کہا کہ آپ کو بغرض اعلیٰ تعلیم جامعہ ازہر مصربھیج دیا جائے المختصرآپ کو ۱۹۶۳؁ء میں مشہور یونیورسٹی جامعہ ازہر قاہرہ بھیج دیا گیا آپ نے کلیہ اصول الدین میں داخلہ لیکر اصول قرآن و احادیث پر ریسرچ فرمائی اور عربی ادب میں کمال وتبحر پیدا کیا،جامعہ ازہر سے آپ کی فراغت ۱۹۶۶؁ء میں ہوئی ایوارڈ اور سند فراغت لے کر آپ اپنے وطن ہندوستان واپس ہوئے۔
*اساتذۂ کرام:* آپ کے قابل ذکر اور مشہور ا ساتذۂ کرام میں حضور مفتی اعظم ہند،حضور مفسر اعظم ہند،بحرالعلوم مفتی افضل حسین مونگیری،حضرت صدرالعلما علامہ تحسین رضا خان،مولانا ریحان ملت اور امام النحو حضرت مفتی بلال احمد پورنوی رحمہ اللہ علیہم کے اسمائے گرامی ہیں۔
*درس وتدریس:* جامعہ ازہر سے تشریف لانے کے بعد ۱۹۶۷؁ء میں یادگار اعلیٰحضرت دارالعلوم منظر اسلام میںدرس و تدریس کے لیے مقرر ہوئے مسلسل بارہ سالوں تک جدوجہد اور محنت و لگن سے پڑھاتے رہے حتیٰ کہ ۱۹۶۸؁ء میں آپ کو صدرالمدرسین کے عظیم منصب پر فائز کیا گیا پھر تقریباّ ۱۹۸۰؁ء میں آپ کثیر مصروفیات کی وجہ سے منظر اسلام سے علاحدہ ہوگئے یہ وہ دور تھا جس میں سرکارمفتی اعظم ہند بیمار چل رہے تھے ۔
*فتویٰ نویسی:* آپ نے فتویٰ نویسی کا آغاذمفتی اعظم کی حیات ہی میں فرمایاتھا چنانچہ مصرسے واپسی پر آپ نے ایک استفتاکاجواب تحریر فرمایا جو تین سوالات پر مشتمل تھا جسے آپ کے ناناجان مفتی اعظم ہند نے بہت پسند فرمایا اور فتویٰ نویسی کی اجازت مرحمت فرمائی چنانچہ منظراسلام میں تدریس کے دوران تدریس کے ساتھ ساتھ فتویٰ بھی لکھا کرتے تھے اور سرکار مفتی اعظم کے وصال کے بعد آپ ہی مرجع فتویٰ ٹھہرے جس سے آپ کی ذمہ داریاں دوچند ہوگئیں پھر آپ نے مرکزی دارالافتاء قائم فرمایا جو ہنوز بحسن و خوبی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے، حضور مفتی اعظم ہند کے انتقال پر ملال کے بعدسے تا حین حیات مسلسل مرجع فتاویٰ رہے آپ کا فتویٰ عالم اسلام میں سند کا درجہ رکھتا تھا آپ کے بے شمار فتاویٰ جات مطبوعہ ہیں آپ اردو ، عربی،انگریزی تینوں زبانوں میں فتاویٰ تحریر فرماتے تھے غالباّ آپ اپنے وقت میں ہندوستان کے ایسے واحد مفتی تھے جو تینوں زبانوں پر یکساں عبور رکھتے تھے۔
*امامت و خطابت:* حضور مفسر اعظم ہند نے آپ کو رضا جامع مسجد کی امامت وخطابت دوران طالب علمی میں ہی سپرد کردی تھی حضور مفتی اعظم ہند بھی آپ کی اقتدا میں نماز ادا کرتے تھے، آپ کا خطاب تین زبانوں میں ہوتا تھا ،ہندو پاک بنگلہ دیش میں اردو،عرب ممالک میں عربی اور یورپ میں انگلش اس کے علاوہ آپ ہندی سنسکرت میمنی گجراتی مراٹھی پنجابی بنگالی تیلگو، کنٹرا ملیالم اوربھوجپوری بولتے اور سمجھتے تھے۔
*شمائل وخصائل:* آپ کامل طورپر متبع شریعت تھے،آپ کی زندگی کے شب وروز،اٹھنا بیٹھنا،کھانا پینا،چال ڈھال اور حال وقال سب سنت مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثنا کا آئینہ دارتھا،آپ کو جن لوگوں نے قریب سے دیکھاہے وہ خوب جانتے ہیں کہ آپ اتنا ہی بولتے تھے جتنا ضروری ہوتا،صبروتحمل اورضبط وبرداشت کا یہ حال تھا کہ سخت تکلیفوں ،بیماریوں اور پریشانیوں میں آہ وبکا اور چیخ وپکار تودور آپ کوکسی نے کبھی کراہتے ہوئے بھی نہ دیکھا،آپ کے مزاج میں یہ وقاری وبردباری بدرجۂ اتم موجودتھی کہ رواروی اور الجھنوں میں بھی آپ مطمئن وپروقاراوربردبارہی نظر آتے تھے ،آپ میں جلد بازی بالکل بھی نہ تھی،گھبراہت تو آپ کے پاس سے کبھی گذری بھی نہیں غرض کہ شمائل وسیرت میں بھی آپ یکتائے زمانہ تھے۔
*ارادت و سلوک:* آپ کو حضور مفتی اعظم ہند نے زمانۂ طفلی میں ہی بیعت کر لیا تھا،’ ’آپ خود لکھتے ہیں کہ میں بچپن سے ہی حضرت مفتی اعظم ہند سے داخل سلسلہ ہو گیا ہوں،تقریبا ۲۰؍سالوں بعد حضومفتی اعظم نے آپ کو جمیع سلاسل کی اجازت وخلافت عطافرمائی پھر سرکار احسن العلماحضرت مفتی سید حسن میاں برکاتی سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف نے بھی سلسلہ قادریہ برکاتیہ نوریہ کی تمام خلافت واجازت سے سرفرازکیا بعدہ آپ کے سرپر دستاربندی بھی فرمائی ،حضرت مفتی برہان الحق رضوی جبل پوری علیہ الرحمہ نے بھی تمام سلاسل اورحدیث کی اجازت عطا فرمائی۔
*حلقۂ مریدین:* آپ ہندوستان کے واحد ایسے شیخ کامل اور مرشد برحق تھے جن کے مریدین تقریبا کل براعظموں میں موجودہیں،آپ کی ذات سے سلسلہ عالیہ قادریہ کو جتنا فروغ ملا زمانۂ ماضی اور حال اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے،آپ کے مریدین میں بڑے بڑے علماومشایخ،شعراوادبا،مفکرین وقائدین،مصنفین ومحققین ،ریسرچ اسکالرس اور پروفیسرس اورانجینیر وڈاکٹرس ہیں جو آپ کی غلامی پر فخر محسوس کرتے ہیں،مریدین کی صحیح تعداد حیطۂ تحریر میں لانا ایک مشکل اور دشوار امرہے،مریدین کی طرح ملک وبیرون ملک میں آپ کے خلفابھی سینکڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں جو آپ کے فیضان سے دین متین کی نشرواشاعت میں ہمہ تن مصروف ہیں۔
*بیرون ممالک تبلیغی دورے:* آپ کی دینی ومذہبی اورقومی وملی خدمات کے لیے کئی دفتردرکارہیں یونہی آپ کے تبلیغٰی دورے اتنے کثیر ہیں کہ انہیں شمارکرنا اور تفصیل سے روشنی ڈالنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے،المختصر آپ نے دین متین کی تبلیغ واشاعت کے لیے براعظم ایشیا،یورپ،امریکہ،افریقہ،آسٹریلیا،مصروشام وغیرہ متعدد ممالک میں تبلیغی دورے فرمائے اور بڑے پیمانے پر دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیا۔
*تصنیف وتالیف:* تحریروقلم کی اہمیت وافادیت چونکہ ہردور میںمسلم رہی ہے اس وجہ سے آپ نے بھی اردو،عربی اور انگریزی تینوں زبانوں میں بہت ساری کتابیں تصنیف فرمائیں ہیں جس کی ایک لمبی فہرست ہے کچھ کے اسمائے یہ ہیں،اردوکتابوں کے نام:شرح حدیث نیت،ہجرت رسول،ٹائی کامسئلہ،تین طلاقوں کا شرعی حکم،دفاع کنزالایمان،تصویروں کا حکم وغیرہ ۔چند عربی کتب کے اسمایہ ہیں:الحق المبین ،الصحابۃ نجوم الاھتداء،شد المشارع،تعلیقات زاہرۃ علی صحیح البخاری،الفردۃ شرح القصیدۃ البردۃ،تحقیق ان ابا سیدنا ابراہیم علیہ السلام تارح لا آزر،القمع المبین لامام المکذبین ،نھایۃ الزین فی التخفیف عن ابی لھب یوم الاثنین،نبذۃ حیاۃ الامام احمد رضا،مرأۃ النجدیۃ بجواب البریلویۃ،روح الفؤاد بذکری خیر العباد ،حاشیۃ عصیدۃ الشھدۃ شرح القصیدۃ البردۃ۔آپ کی تحقیقی ،تصنیفی اورتالیفی خدمات کو دیکھ کرعرب وعجم اور ہندوسندھ کے معزز علماومفتیان کرام بے حدمتاثر ہوئے اور انہی خدمات دین کی بدولت سبھوں نے آپ کو اپنا مقتدا وپیشوا تسلیم کیا۔
*زیارت حرمین شریفین:* ممدوح گرامی حضرت تاج الشریعہ قدس سرہ السامی چھ مرتبہ حج بیت اللہ کی عظیم سعادت سے مالا مال ہوئے ۔پہلا حج ۱۴۰۳ھ؁ مطابق ۴؍دسمبر ۱۹۸۳ء؁ ۔دوسرا حج ۱۴۰۵ء؁ مطابق۱۹۸۵؁ء۔تیسرا حج ۱۴۰۶ھ؁ مطابق ۹۸۶ ۱ء؁ ۔چوتھا حج ۱۴۲۹ھ؁ مطابق ۲۰۰۸؁ء۔پانچواں حج ۱۴۳۰ ؁ھ مطابق ۲۰۰۹ ء؁۔ چھٹا حج ۱۴۳۱ھ؁ مطابق ۲۰۱۰ء؁ ۔اس کے علاوہ انگنت بار آپ نے عمرہ کیا ،کبھی کبھی سال میں دو چار بار مدینہ منور ہ حاضر ہوتے بلکہ اخیر عمر شریف میں عموما ہر سال ماہ رمضان المبارک کے پر کیف موسم میں عمرہ کی لازوال سعادت حاصل کرتے رہے۔
*سفر آخرت:* یہ دنیا دارالفناہے یہاں جوآیاہے جانے کے لیے ہی آیا ہے(کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام)یوں تو روزانہ کتنے ہی افرادِ عالم آخرت کی جانب کوچ کرتے ہیں مگر ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی رحلت صرف ایک گھر یا خاندان یا شہر کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری ملت کے لیے باعث رنج والم ہوتی ہے،ایسی ہی نادرروزگارشخصیات میں مرجع خلائق تاج الشریعہ مفتی اختررضا خان قادری ازہری کا شمارہوتاہے،آپ نے اپنے کروڑوں شیدائیوں کو روتابلکتا غموں میں چھوڑ کر ۶؍ذی قعدہ ۱۴۳۹ھ مطابق ۲۰؍جولائی بروز جمعہ ہندوستانی وقت کے مطابق شام ساڑے ساتھ بجے بریلی شریف یوپی انڈیا میں داعی اجل کو لبیک کہا ،انا للہ وانا الیہ راجعون،آپ کی رحلت سے بلاشبہ اہلسنت وجماعت میں ایسی خلا پیدہوگئی جس کا پر ہونا مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا۔
اہل سنت کے روح رواں چل دیے
آہ دنیا سے اختر میاں چل دیے
رہ گیا خالی خالی ہماراوجود
لے کے وہ ساری تاب تواں چل دیے
مزاراعلیٰ حضرت کی پچھم جانب ازہری گیسٹ ہاؤس میں آپ کو سپرد خاک کیاگیا وہیں آپ کا مزارپر انوار مرجع خلائق ہے۔
ہجر مرشد ہے کہ ہے جاں پر ستم شام وسحر
راہ تکتی ہے تمہاری چشم نم شام وسحر
🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀
*متخصص فی الفقہ الاسلامی*
امام احمدرضا لرننگ اینڈ ریسرچ سینٹر،ناسک، مہاراشٹر۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے