Aala Hazrat Imam Ahmed Raza Khan ‎Ka ‏Zamana ‎e ‎Talib ‎Ilmi

سلسلۂ فیضان رضا (اا) 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

اعلی حضرت علیہ الرحمہ کا زمانۂ طالب علمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

تحریر : محمد گلریز رضا مصباحی مدناپوری، بریلی شریف
استاذ : جامعۃ المدینہ فیضان عطار ـ ناگپور
 ناشر : مجلسِ مضمون نگاری ہند (جامعات المدینہ ، دعوتِ اسلامی ـ انڈیا ) 
mazmoonnigarihind@gmail.com
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
ہم اپنے ارد گرد دیکھتےہیں کہ دنیا میں  روزانہ بے شمار بچوں کی پیدائش ہوتی ہے ، دھیرے دھیرے وہ پروان چڑھتے ہیں، زندگی کے آٹھ دس سال گزارنے کے بعد ان کے اندر شعور بیدار ہوتا ہے اور اپنے اچھے برے کی تمیز کرتے ہیں ، لیکن  آج سے سو برس قبل ایک مذہبی اور دیندار گھرانے میں ایک ایسابچہ پیدا ہوتا ہے جس کی زندگی کا ہر ہر لمحہ بے مثال ہے، ابتدا سے انتہا تک اس نے ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں، جن کو دیکھ کر بڑے بڑے دانشوروں کی عقلیں حیران رہ جاتی ہیں، ہمارے یہاں پیدا ہونے والے بچوں کی ابتدائی تعلیم کا وقت کھیل کود، یا پھر لہوو لعب میں گزرتا ہے، لیکن یہ بچہ واقعی عظیم بچہ ہے جو 4 سال کی عمر میں ناظرہ قرآن ختم کرلیتا ہے ،6 سال کی عمر میں پہلا بیان کرتا ہے، 7 سال کی عمر میں روزہ رکھنے پر اپنے والد محترم سے عرض کرتا ہے کہ اگرچہ مجھے یہاں کوئی نہیں دیکھ رہا ہے لیکن جس اللہ کے لیے میں نے روزہ رکھا ہے وہ مجھے دیکھ رہا ہے ۔ رسم بسم اللہ خوانی کے موقع پر زبردست سوال کے ذریعہ قاری صاحب کو حیرت میں ڈال دیتا ہے اس مبارک بچے کو دنیا مجدد دین وملت امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔

آنے والے سطور میں ہم بیان کریں گے کہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہ طالب علمی کتنا خوب صورت اور پاکیزہ تھا۔
اعلی حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن 10 شوال، 1272ھ مطابق 14 جون 1856 ء کو ہند کے شہر بریلی شریف میں پیدا ہوئے، آپ کا نام محمد ہے، دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔(فیضان، امام اہل سنت ص 22)
اعلی حضرت کا بچپن پاکیزہ اخلاق، اتباع سنت اور حسن سیرت سے مُزیّن تھا، ابتدائی تعلیم والد گرامی سے حاصل کی، چار سال کی عمر میں ناظرہ قرآن ختم کرلیا۔(فیضان امام اہل سنت ص 22).
عام طور پر بچے جب بولنا شروع کرتے ہیں تو تُتلاتے ہیں مگر اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے جب بولنا شروع کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی زبان صاف تھی اور عام بچوں کی طرح زبان میں کوئی تتلاپَن نہیں تھا۔ (فیضان امام اہل سنت ص 26)
*ابتدائی تعلیم*
رسم بسم اللہ خوانی کے بعد اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہوگیا آپ نے اپنی چار برس کی ننھی سی عمر میں جبکہ دوسرے بچے اس میں اپنے وجود سے بھی بے خبر رہتے ہیں قرآن مجید ناظرہ ختم کرلیا ،چھ سال کی عمر میں ماہ مبارک ربیع الاول کی تقریب میں منبر پر رونق افروز ہوکر بہت بڑے مجمع کی موجود گی میں ذکر میلاد شریف پڑھا 
(سوانح اعلی حضرت ص 98).
آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اُردو، فارسی کی ابتدائی کتابیں جناب ِ مرزا غلام قادر بیگ بریلوی  علیہ الرحمہ سے پڑھیں، بعد میں انہی مرزا صاحب نے اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے " ہدایہ"کا سبق لیا ۔گویا آپ ان کے شاگرد بھی تھے اور استاذ بھی۔ (فیضان امام اہل سنت ص 36).

*تکمیل علوم درسیہ*
آپ نے اپنے والد ماجد علامہ نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ سے تعلیم وتربیت پائی اور ان ہی سے درسی علوم سے فراغت حاصل کی(تذکرہ علمائے ہند، ص 449).

آپ نے اپنے والد محترم سے مندرجہ ذیل 21 علوم پڑھے۔
(1).علم قرآن (2).علم تفسیر (3) علم حدیث ۔(4).اصول حدیث ۔(5).کتب فقہ حنفی ۔(6).کتب فقہ شافعی ومالکی وحنبلی۔(7).اصول فقہ ۔(8).جدل مہذب۔(9).علم العقائد والکلام ۔(جو مذاہب باطلہ کی تردید کے لیے ایجاد ہوا) (10).علم نحو۔(11).علم صرف۔(12).علم معانی ۔(13).علم بیان (14).علم بدیع۔(15).علم منطق ۔(16).علم مناظرہ ۔(17).علم فلسفہ. (18).ابتدائی علم تکسیر ۔(19).ابتدائی علم ہیئت ۔(20).علم حساب، تا جمیع تفریق ،ضرب، تقسیم. (21.)ابتدائی علم ہندسہ۔
تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کی عمر شریف میں 14 شعبان  1286ھ مطابق 19 نومبر 1869ء کو آپ فارغ التحصیل ہوئے اور دستار فضیلت سے نوازے گئے، اسی دن مسئلہ رضاعت سے متعلق ایک فتویٰ لکھ کر اپنے والد ماجد کی خدمت میں پیش کیا جواب بلکل صحیح تھا والد ماجد نے ذہن نقاد و طبع وقاد دیکھ کر اسی وقت سے فتویٰ نویسی کی جلیل الشان خدمت آپ کے سپرد کر دی۔(سوانح اعلیٰ حضرت ص 99)
*شوق علم*
آپ کی ہمشیرہ بیان کرتی ہیں کہ آپ نے پڑھائی کے معاملے میں کبھی ضد نہیں کی، خود سے برابر پڑھنے جایا کرتے تھے حتی کہ جمعہ کے دن بھی جانا چاہتے تھے مگر والد صاحب کے منع فرمانے سے رک گئے ۔ (حیات اعلی حضرت جلد ،1ص 69 ملخصا).
اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد ماجد سے اس طرح تعلیم حاصل کرتے کہ آپ کے والد ماجد نے آپ کو کوئی درسی کتاب پوری نہ پڑھائی ۔ جب وہ دیکھتے کہ امن میاں (اس نام سے گھر میں اعلی حضرت کو پیار سے پکارا جاتا تھا ۔) مصنف کتاب کے طرز تحریر سے خوب واقف ہوگئے ہیں اور اپنا سارا سبق مطالعہ ہی میں نکال لیتے ہیں ،اس کتاب میں اگر کچھ مشہور مشکل مقامات ہوتے تو ان پر عبور کرادیتے، یا اور دوسری کتاب شروع کردیتے،۔شاید ہی کوئی کتاب پوری پڑھانا پڑی ہو ۔اس طرح وہ نہایت قلیل مدت میں تمام درسی علوم کے سمندروں کو عبور کر گئے۔ (سیرت اعلی حضرت ص 46.امام احمد رضا اکیڈمی ).

*انوکھا واقعہ*
ـــــــــــــــــــــــ
آپ، رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے دور تعلیم میں چھاپے خانے نہ تھے ۔لہذا اکثر درسی کتابیں قلمی اور معرا پڑھی جاتی تھیں ۔آپ مسلم الثبوت پڑھ رہے تھے اور زیادہ رات تک مطالعہ کرتے تھے ۔جس مقام پر آپ کا سبق ہونے والا تھا وہاں آپ کے والد ماجد نے مولانا محبّ اللہ صاحب بہاری (مصنف کتاب) پر ایک اعتراض کردیا تھا جو انہوں نے حاشیہ پر درج کرکے چھوڑ دیا تھا ۔ جب اعلی حضرت قبلہ کی نظر اس اعتراض پر پڑی تو آپ کی طبیعت میں یہ بات آئی کہ مصنف کی عبارت کو حل ہی اس طرح کیا جائے کہ اعتراض وارد نہ ہو ۔آپ اس حل کو ایک بجے رات تک سوچتے رہے بالآخر تائید غیبی سے وہ حل سمجھ میں آگیا آپ کو انتہائی مسرت ہوئی اور اس وفور مسرت میں بے اختیار آپ کے ہاتھوں  سے تالی بج گئی ۔اس سے سارا گھر جاگ گیا اور کیا ہے، کیا ہے، کا شور مچ گیا ،تو آپ نے اپنے والد ماجد کو کتاب کی عبارت اور اس کا عام مطلب اور اس پر اعتراض سنانے کے بعد آپ نے اپنی طرف سے اس عبارت کی ایک ایسی تقریر کی  کہ وہ اعتراض ہی نہ پڑا، اس پر باپ نے گلے سے لگالیا اور فرمایا امن میاں تم مجھ سے پڑھتے نہیں  بلکہ مجھے پٍڑھاتے ہو۔(سیرت اعلی حضرت ص۔47).

*کھیل کود سے دوری*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
اعلی حضرت قبلہ بچپن میں بھی بچوں کے ساتھ نہ کھیلے ۔محلہ کے بچے گھر میں آکر کھیلتے تو آپ ان کے کھیل میں شریک نہ ہوتے بلکہ دیکھا کرتے ۔اس زمانے کے بچوں میں پتنگ اڑانے کا عام رواج تھا ۔آپ پتنگ بھی نہ اڑاتے بلکہ اگر کٹی ہوئی پتنگ آپ کے گھر آکر گرتی تو آپ اٹھاتے اور اپنے والد ماجد کے پلنگ کے نیچے رکھ دیتے ۔وہ آتے اور دریافت کرتے کہ میرے پلنگ کے نیچے پتنگ کس نے رکھ دی ہے عرض کیا جاتا کہ امن میاں (اعلی حضرت کا چھوٹا نام) نے رکھی ہے ۔تو فرماتے انہوں نے پتنگ خود نہ اڑائی، میرے اڑانے کے لیے رکھ دی ہے ۔ہاں انہیں اللہ تعالی نے لہو ولعب کے لیے پیدا ہی نہیں کیا ۔(سیرت اعلی حضرت ص 42).
*استاد سے جو سبق پڑھا یاد ہوگیا*
اعلی حضرت خود فرماتے تھے کہ میرے استاد جن سے میں ابتدائی کتاب پڑھتا تھا جب مجھے سبق پڑھا دیا کرتے ایک دو مرتبہ میں دیکھ کر  کتاب بندکردیا کرتا ۔جب سبق سنتے تو حرف بحرف لفظ بہ لفظ سنادیتا روزانہ یہ حالت دیکھ کر سخت تعجب کرتے ایک دن مجھ سے فرمانے لگے کہ "احمد میاں" یہ تو کہو تو آدمی ہو یا جن فرشتہ کہ مجھ کو پڑھانے میں دیر لگتی ہے مگر تم کو یاد کرنے میں دیر نہیں لگتی ۔(حیات اعلی حضرت جلد اول ص 96).
*مولانا عبد العلی سے علم ہیئت کی تعلیم*
اعلی حضرت ایک مرتبہ کسی ضرورت سے رام پور تشریف لے گئے وہاں جناب مولانا عبد العلی صاحب ہیئت کے مشہور فاضل تھے چند روز ان کی  خدمت میں رہ کر شرح چغمینی کے اسباق لیے تھے ۔(حیات اعلی حضرت جلد اول ص 97).
*مولانا عبد الحق خیر آبادی سے ایک علمی گفتگو*
دوسری مرتبہ جب آپ  رام پور تشریف لے گئے تو وہاں نواب رام پور نواب کلب علی خان سے ملاقات  ہوئی دوران گفتگو نواب صاحب نے فرمایا کہ یہاں مولانا عبد الحق خیر آبادی مشہور منطقی ہیں ۔آپ ان سے کچھ منطق کی کتابیں قدماء کی تصنیفات سے پڑھ لیجیے اعلی حضرت نے فرمایا اگر والد صاحب کی اجازت ہوگی تو کچھ دن یہاں ٹھہر سکتا ہوں 
یہ باتیں ہورہی تھیں کہ مولانا عبد الحق خیر آبادی مرحوم بھی تشریف لے آئے ۔جناب نواب صاحب نے اعلی حضرت کا ان سے تعارف کرایا : اور فرمایا باوجود کم سنی ان کی کتابیں سب ختم ہیں، اور اپنے مشورے کا ذکر فرمایا۔انہوں نے اعلی حضرت سے دریافت فرمایا کہ منطق میں انتہائی کون سی کتاب آپ نے پڑھی ہے ۔اعلی حضرت نے فرمایا "قاضی مبارک"یہ سن کر دریافت فرمایا کہ "شرح تہذیب"پڑھ چکے ہیں؟ یہ طعن آمیز سوال سن کر اعلی حضرت نے فرمایا کہ :کیا جناب کے یہاں قاضی مبارک کے بعد شرح تہذیب پڑھائی جاتی ہے؟ سیر کا سوا سیر جواب پاکر جناب مولانا عبد الحق نے سوال کا رخ دوسری جانب پھیرا اور پوچھا کیا مشغلہ ہے، فرمایا تدریس افتا، تصنیف، پوچھا کس فن میں تصنیف کرتے ہیں؟ فرمایا :مسائل دینیہ ورد وہابیہ ۔سن کر فرمایا رد وہابیہ! ایک میرا وہ بدایونی (مولانا شاہ عبد القادر بدایونی رحمۃ اللہ علیہ)  خبطی ہے کہ ہمیشہ اسی خبط میں رہتا ہے اور رد وہابیہ کیا کرتا ہے ۔ اعلی حضرت نے سنتے ہی فرمایا
"جناب کو معلوم ہوگا کہ وہابیہ کا رد سب سے پہلے جناب مولانا فضل حق جناب کے والد ماجد ہی نے کیا، اور مولوی اسمعیل دہلوی کو بھرے مجمع میں مناظرہ کرکے ساکت کیا تھا، اور ان کے رد میں ایک مستقل رسالہ بنام " تحقیق الفتوی لسلب الطغوی " تحریر فرمایا ہے۔اس پر مولانا عبد الحق صاحب خاموش ہوگئے اور کچھ جواب نہ دیا ۔
(حیات اعلی حضرت جلد اول ص 99،ملخصا).

*اعلی حضرت کے چند اساتذہ*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
اعلی حضرت کے اساتذہ کی فہرست بہت مختصر ہے حضرت والد ماجد صاحب قدس سرہ العزیز کے علاوہ پنجتن پاک کے عشاق صرف یہ پنچ نفوس قدسیہ ہیں ۔
(1).اعلی حضرت کے وہ استاد جنہوں نے ابتدائی کتابیں پڑھائیں۔
(2).جناب مرزا غلام قادر بیگ صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ۔
(3).جناب مولانا عبد العلی صاحب رام پوری 
(4).حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری قدس سرہ العزیز۔
(5).والد ماجد وپیرو مرشد قدس اسرارھما۔کو شامل کرکے چھ نفوس قدسیہ ہوتے ہیں ۔
ان چھ حضرات کے علاوہ حضور نے کسی کے سامنے زانوے ادب تہ نہیں کیا مگر خداوند عالم نے محض اپنے فضل وکرم اور آپ کی محنت وخداداد ذہانت کی وجہ سے اتنے علوم وفنون کا جامع بنایا کہ پچاس فنون میں حضور نے تصنیفات فرمائیں اور علوم ومعارف کے وہ دریا بہائے کہ خدام و معتقدین کا تو کہنا کیا مخالفین بھی یہ کہنے پر مجبور ہوتے کہ مولانا احمد رضا خاں قلم کے بادشاہ ہیں جس مسئلہ پر قلم اٹھایا نہ موافق کو ضرورت افزائش نہ مخالف کو دم زدن کی گنجائش ہوتی ہے ۔
(حیات اعلی حضرت جلد 1 ص 100).
اللہ تعالی امام اہل سنت اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی قبر انور پر رحمت ونور کی برسات فرمائے 
درجات بلند فرمائے اور ان کے فیضان سے ہمیں مالا مال فرمائے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
تحریر : گلریز رضا مصباحی  
استاذ : جامعۃ المدینہ فیضان عطار ـ ناگپور
 ناشر : مجلسِ مضمون نگاری ہند (جامعات المدینہ ، دعوتِ اسلامی ـ انڈیا ) 
mazmoonnigarihind@gmail.com
۲۵ ؍ صفرالمظفر ۱۴۴۳ھ
۳ ؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء | اتوار

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے