khanwadae-aala hazrat ka mukhtsar sa taruf

❤ #خانوادہ_اعلیٰ_حضرت_کا_مختصر_سا_تعارف ❤

خانوادہ رضا صدیوں سے اپنی شجاعت و بسالت، دلیری و بہادری میں ممتاز تھا، اس خاندان کو مفتی رضا علی خاں رحمه الله نے تلوار کی جگہ قلم تھما دی، یہ خانداں 1242ھ سے لے کر اب تک تقریبا دو سو سالوں سے فتویٰ نویسی کی خدمات انجام دے رہا ہے۔
اس خاندان کا نسبی سلسله اس طرح ہے۔ تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خاں ازہری بن مفسر اعظم ہند مولانا ابراہیم رضا خاں بن حجة الاسلام مولانا حامد رضا خاں بن امام اہلسنت امام احمد رضا خاں بن مولانا نقی علی خاں بن امام العلماء مولانا رضا علی خاں بریلوی بن حافظ کاظم علی خاں بن محمد اعظم خاں بن سعادت یار خاں بن شہزادہ سعید الله خاں رحمه الله

#شہزادہ_سعید_الله_خاں:

آپ ریاست قندھار (افغانستان) کے ولی عہد اور بڑھیچ پٹھان تھے، جو ہندوستان تشریف لائے اور لاہور میں قیام کیا، بادشاہ نے آپ کی شجاعت اور حسن تنظیم کو دیکھ کر لاہور کا شش محل دیا، چند دنوں بعد آپ دہلی چلے آئے، یہاں آپ کو شجاعت جنگ کا خطاب ملا، روہیل کھنڈ میں باغیوں کی سرکوبی کرنے کی وجہ سے حکومت نے آپ کو صوبہ دار (گورنر) بنا دیا، اور بریلی میں رہنے کا حکم ملا، بڑھاپے میں آپ نے ملازمت چھوڑ دی اور یاد الہی میں مشغول ہو گئے، جس میدان میں آپ یاد الہی کے لیے قیام کیا کرتے تھے اسی میں آپ کی وفات و تدفین ہوئی، اور اس قبرستان کا نام آپ کی نسبت سے "شہزادہ کا تکیہ" کہلاتا ہے۔

#سعادت_یار_خاں:

شجاعت جنگ رحمه الله کے شہزادے سعادت یار خاں آپ کی حیات میں ہی دہلی کے وزیر مالیات (وزیر خزانہ) ہو گئے تھے، آپ نہایت عزت کے ساتھ اس عہدے پر فائز رہے، دہلی میں آپ نے اپنی وزارت کی دو نشانياں چھوڑی پہلی "بازار سعادت گنج" اور دوسری "سعادت خاں نہر"۔

#محمد_اعظم_خاں:

سعادت یار خاں رحمه الله کے صاحب زادے محمد اعظم خاں بھی حکومت کی جانب سے معزز عہدوں پر فائز ہوئے، آپ کی طبیعت میں فقیری اور بے نیازی تھی اسلئے آپ بہت جلد بریلی واپس آگئے، اور اپنے دادا کی مزار کے قریب گوشہ نشیں ہو گئے اور یہیں آپ کا وصال ہوا۔

#حافظ_کاظم_علی_خاں :

محمد اعظم خاں رحمه الله کے صاحب زادے حافظ کاظم علی خاں شہر بدایوں کے تحصیل دار تھے، آپ کی جاگیر میں آٹھ گاؤں اور دو سو سواروں کی فوج تھی، آزادی ہند کے بعد سنه 1954ء تک یہ جاگیر آپ کے خاندان میں رہی، حافظ صاحب مولانا انوار الحق فرنگی محلی رحمه الله سے مرید تھے، یہ اعلیٰ حضرت کے پیر و مرشد سید شاہ آل رسول مارہروی رحمه الله کے استاذ تھے۔ حافظ صاحب کے دو صاحب زادے ہوئے مفتی رضا علی خاں اور حکیم تقی علی خاں علیہم الرحمه۔

#مفتی_رضا_علی_خاں:

آپ کی ولادت 1224ھ (1809ء) میں ہوئی، مولانا خلیل الرحمن رحمه الله سے علوم دینیہ حاصل کرکے 22 سال کی عمر میں مسند افتا کو رونق بخشی، آپ نے مجاہدین جنگ آزادی کی سرپرستی فرمائی، جب علمائے کرام نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تو آپ نے مجاہدین کی پوری مدد کی اور گھوڑے پہنچانے میں نمایا کردار ادا کیا، آپ نے رد رافضیت و رد وہابیت پر بھی اچھا خاصہ کام کیا، آپ علامہ فضل حق خیرآبادی رحمه الله کے ہم عصر اور مولانا فضل الرحمن گنج مرادآبادی تلمیذ شاہ عبد العزیز ابن امام شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمه الله سے مرید تھے۔ آپ کا وصال 2 جمادی الاولیٰ سنه 1286ھ میں بریلی شریف میں ہوا۔

#مفتی_نقی_علی_خاں:

یہ امام العلماء مفتی رضا علی خاں رحمه الله کے صاحب زادے تھے، آپ نے اپنے والد امام العلماء سے علوم ظاہری و باطنی حاصل کیا، آپ کو حرمین شریفین میں شیخ الاسلام سید زینی دحلان مکی شافعی، شیخ عبد الرحمن سراج حنفی اور امام شافعیہ علامہ حسین بن صالح علیہم الرحمه سے حدیث و فقه میں سند حاصل تھی، ہندوستان کے جید علماء میں آپ کا شمار ہوتا تھا، آپ عالم و فاضل، عظیم مفکر و مصنف اور کامیاب مناظر تھے، آپ جنگ آزادی میں بھی شریک ہوئے، آپ کے تصانیف کی تعداد تقریبا 25 ہے، چند کے نام یہ ہیں: الکلام الاوضح (تفسیر سورہ الم نشرح دو جلد)، تذکیة الایمان برد التقویة الایمان، اصول الرشاد وغیرہ۔

#امام_احمد_رضا_خان:

رئیس الاتقیا مولانا نقی علی کے صاحب زادے امام احمد رضا خاں کی ولادت با سعادت 10 شوال المکرم 1272 ھ (14 جون 1856 ء) کو بریلی شریف میں ہوئی تھی، آپ محدث، مفسر، مفکر، حافظ، قاری، مفتی، عالم، فاضل، محقق، مدبر، قانون داں، سائنس داں اور 14 ویں صدی ہجری کے مجدد تھے۔ آپ کا وصال 25 صفر 1340ھ (1921ء) کو جمعہ کے دن ہوا، آپ کی چند مشہور تصانیف مندرجہ ذیل ہیں: کنز الایمان ترجمه قرآن، فتاویٰ رضویہ، فتاویٰ افریقه، حدائق بخشش، جد الممتار علی رد المختار، الدولة المکیة وغیرہ۔

#مولانا_حسن_رضا_خاں:

مفتی نقی علی خاں کے چھوٹے صاحب زادے استاد ذمن مولانا حسن رضا خان بریلوی کی ولادت ربیع الاول 1276ھ ( 19 اکتوبر 1859ء) کو دہلی میں ہوئی، نعت گوئی میں مولانا حسن رضا خاں کے استاد امام احمد رضا تھے جبکه شاعری میں داغ دہلوی سے اصلاح لیتے رہے، آپ کا انتقال 3 شوال 1326 ہجری ( 1908ء) کو ہوا، آپ کی چند تصانیف مندرجہ ذیل ہیں۔ آئینہ قیامت، دینِ حسن در حقیقتِ اسلام، وسائل بخشش در، ذکرِکراماتِ غوثِ اعظم، نگارستانِ لطافت در ذکر میلاد شریف وغیرہ۔

#مولانا_حامد_رضا_خاں:

یہ امام احمد رضا رحمه الله کے بڑے صاحب زادے اور خاص خلیفه و شاگرد ہیں، آپ تفسیر، حدیث اور فقه وغیرہ کا علم حاصل کرنے کے بعد 1312ھ (1895ء) سے لے کر 1326ھ (1908ء)تک مسند افتا پر فائز رہے، حجة الاسلام مولانا حامد رضا خاں کا 1319ھ (1901ء) میں "فتویٰ عالم ربانی علی اسراف القاديانی" کے عنوان سے شائع ہوا، آپ نہایت خوبصورت بھی تھے، آپ کی چند تصانیف و تراجم یہ ہیں۔ فتاویٰ حامدیہ، سلامة الله لاھل السنة، ترجمه حسام الحرمین، دیوان نعت، ترجمه الدولة المکیة وغیرہ۔

#علامہ_مصطفیٰ_رضا_خاں:

آپ امام اہلسنت امام احمد رضا کے چھوٹے صاحب زادے تھے، آپ ہندوستان کے سابق مفتی اعظم ہیں اور مفتی اعظم ہند کے لقب سے عالم اسلام میں مشہور ہوئے، آپ کی ولادت 22 ذی الحجہ 1310ھ(7 جولائی 1893ء) کو صبح صادق کے وقت بریلی شریف میں ہوئی، 6 ماہ 3 دن کی عمر میں آپ کو شیخ المشائخ ابو الحسین نوری رحمه الله نے تمام سلاسل کی اجازت و خلافت عطا فرمائی، آپ کے چند مشور شاگرد محدث اعظم پاکستان ، شارح بخاری اور تاج الشریعہ علیہم الرحمه وغیرہ ہیں۔ آپ کا وصال 14 محرم 1402ھ (1981ء) میں ہوا، آپ کی مشهور تصنیف فتاویٰ مفتی اعظم ہند، سامان بخشش عرف گلستان نعت نوری، فصل الخلافة وغیرہ ہے۔

#مولانا_ابراھیم_رضا_خاں:

آپ حجة الاسلام کے صاحب زادے اور مفتی اعظم ہند کے داماد ہیں، آپ کی ولادت 10 ربیع الاول 1325ھ کو بریلی شریف میں ہوئی، حجة الاسلام نے اپنے وصال سے قبل مفسر اعظم ہند مولانا ابراھیم رضا عرف جیلانی میاں رحمه الله کو اپنا جانشین، خانقاہ عالیہ رضویہ کا سجادہ نشین اور دار العلوم منظر اسلام کا مہتمم بنا دیا، حجة الاسلام کا وصال 11 صفر 1385ھ (12 جون 1965ء) کو ہوا، آپ کی چند تصانیف یہ ہیں۔ معارف القرآن، تفسیر سورہ بلد، تحفه حنفیه، فضائل درود شریف، گلزار احادیث وغیرہ۔

#مفتی_اختر_رضا_خاں:

مفسر اعظم ہند کے صاحب زادے اور مفتی اعظم ہند کے نواسے و جانشین مفتی اختر رضا خاں المعروف تاج الشریعہ ازہری میاں کی ولادت بریلی شریف کے محلہ سوداگران میں 2 فروری 1943ء کو ہوئی تھی۔ آپ ایک عظیم محدث، مفسر، مفتی ،مدبر، فقیہ، ادیب و خطیب، صوفی اور شاعر وغیرہ تھے۔ آپ ہندوستان کے سابق مفتی اعظم و قاضی القضاة ہیں، آپ کا وصال 20 جولائی 2018ء کو بریلی شریف میں ہوا، آپ کی چند تصانیف یہ ہیں۔انوار المنان فی توحید القرآن، منحۃ الباری فی حل صحیح البخاری، حاشیۃ الازہری علی صحیح البخاری، فتاویٰ تاج الشریعہ، ازہر الفتاویٰ، مراۃ النجدیہ بجواب البریلویہ، ہجرت رسول اور سفینۂ بخشش وغیرہ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے