Aalahazrat Imam Ahmed Raza Ulma Ki Nazar Me اعلیحضرت امام احمد رضا علماء کرام کی نظر میں


اعلیحضرت امام احمد رضا علماء کرام کی نظر میں         

اعلی حضرت امام احمد رضا عالم اسلام کی عظیم ترین شخصیت ہیں ۔آپ علم ودانش کے سمندر ہیں ،اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل کے علم کی ایک جھلک دیکھ کر علمائے عرب وعجم حیران رہ گئے ۔آپ کی علمی تحقیقات کو نہ صرف اپنوں نے بلکہ وہ لوگ جو آپ سے اختلاف رکھتے تھے ۔انہوں نے بھی تسلیم کیا ہے ،کچھ ایسے ہی علماء ومفکرین جو اپنے اپنے مکتبہ فکر میں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔  

الشیخ محمد توفیق الایوبی۔الانصاری علیہ الرحمہ ،مدینہ منور:

  فاضل مولف مولانا احمد رضا خان رحمتہ اللہ علیہ سے میں التجاء کرتا ہوں کہ اپنی نیک دعائوں میں مجھے رکھیں ۔اس لئے کہ ان کی دعائیں سزاواراجابت و قبولیت ہیں ۔کیوں کہ وہ رسول اکرمﷺکے سچے عاشقوں میں سے ہیں ۔(فاضل بریلوی علمائے حجاز کی نظرمیں ڈاکٹر مسعود احمد مظہری ص، ۳۲) 

الشیخ غلام محمد برہان الدین ابن سید نورالحسن علیہ الرحمہ ،مدینہ منور :

  ـ’’بس اے بھائیو!اس دولت کی طرف جلدی کرواور اس فاضل مصنف کی تصانیف کے مطالعہ میں کوشش کرو اور سید رعالم حبیب رب العالمین کی محبت میں اس علامہ کا اتباع ،اور ان کے نقش قدم پر چلوکہ یہ سیدھے راستے اور صراط مستقیم پر ہیں ۔(فاضل بریلوی علمائے حجاز کی نظر میں ۔ص ۱۳۲)

پیر طریقت حضرت خواجہ محمد قمرالدین سیالوی ،سر گودھا،پاکستان :

  میںمولانا احمد رضا خان  بریلوی کی خاک پاکے برابر بھی نہیں ۔کیوں کہ فقیر کے عقیدے میں مذہب کی بنیاد عشق رسول پر ہے اور عشق رسول کی بنیاد ادب پر ہے مولانا بریلوی کو ذات رسول سے بے پناہ عشق تھا ۔(دبستان رضا مولانا یسین اختر مصباحی ، ص۱۱۵)

مفتی سید حامد جلالی ، کراچی پاکستان :

  رہی ان کی حقتقت یہ ان کی عقیدت کی پختگی اور شدت پر بنی تھی وہ فنافی عشق رسول کریمﷺتھے ۔اپنے محبوب ﷺکی شان میں ادنی گستاخی بھی برداشت نہ کرسکتے تھے (دبستان رضا مولانا یسین اختر مصباحی ،ص۱۱۶) 

حضر ت شاہ فضل الرحمان گنج مرادآبادی علیہ الرحمہ،گنج مرادآباد، ہندستان:

  فاضل بریلوی مولانا شاہ احمد رضا ۱۳۱۹ ھ میں شیخ المحدثین مضرت مولانا و صی احمد محدث سورتی کی رفاقت میں گنج مرادآباد حضر ت شا ہ فضل الرحمان گنج مرادآبادی کی ملاقات کو پہونچے حضرت نے مولانا بریلوی کا قصبہ سے باہر نکل استقبال کیا ،اپنے مخصوص ہجرے میں مہمان ٹھرایا ،عصر کے بعد کی صحبت میں آپ کے بارے میں حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا ‘‘مجھے آپ میں نور ہی نور نظر آتا ہے ‘‘اس کے بعد اپنی ٹوپی اوڑھادی اور ان کی خودا اوڈھی لی ۔(تذکرہ علمائے اہلسنت شاہ محمد احمدقادری ،ص،۲۰۸)

حضرت خواجہ حسن نظامی ۔درگاہ الد ین اولیاء ،دہلی:

مولانا احمد رضا خان صاحب ہندستان کی بر گزیدہ شخصیت تھے ان کی ذات مجمع الصفات ،مختلف علوم کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک شاعر بے بدل ،بلند پایہ ادیب ، مفسر قرآن ،اور محدث اعظم تھے ، وہ  جنگ آزادی کے مجاہد بھی تھے اور شیخ طریقت بھی ۔انہوں نے بے شمار خلق اللہ کو نیکی کے رستہ پر گامزن کیا ۔ان کی عالمانہ شخصیت اور بے مثال خدمت کا اعتراف ہند ستان کی اعلیٰ شخصیت نے کیا ہے ۔(دبستان رضا ۔مولانا یسین اختر مصباحی ،ص،۱۱۵)

علامہ مشتاق احمد نظامی ،دارالعلوم غریب نواز الہ باد  یوپی ،انڈیا:

آقا ئے کائنات سے ان کی والہانہ شیفتگی ضرب المثل بن چکی ہے ،لیکن اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی موجودگی اور از خودر فتگی بھی ادب شناس ہوجاتی ہے وہ کیف وسرور کہ عالم میں بھی تقاضائے ادب ملحوظ رکھتے ہیں وہ اضطرب شوق کے ہنگا مہ ہاوہومیں بھی فریاد کی بے تیز نہیں ہونے د یتے آواز کے ز یروبم پر بھی ان کی گرفت رہتی ہے اور وہ نوک قلم پر بھی پہرہ بیٹھاتے ہیں ۔(مقدمہ فقیہ اسلام ۔ڈاکٹر حسن رضا خان پٹنہ ۔ص،۹)

علامہ ارشاد القادری جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء ۔۔۔۔۔دہلی:

عشق وایمان کی روح اس کے وجود کی آگ آگ میں اسطرح رچ بس گئی ہے کہ اپنے محبوب کی شوکت جمال کیلئے وہ ہر وقت بیچین رہتا ہے غم عشق میں سلگتی ہوئی اس کے جگرکی آگ کبھی نہیں بجھتی ۔اس کے دل کا دھواں کبھی نہیں بند ہوتا ۔اور نقش و نگار جاناں کیلئے ان کے قلم کی روشنائی کبھی نہیں سو کھتی ، پلکوں کا ایک قطرہ ڈھلکنے نہیں پاتا کہ اس کی جگہ آنسوں کا نیاطوفان امنڈ نے لگتا ہے وہ اپنے محبوب کے وفاداروں پر اس درجہ مہر بان ہے کہ قدموں کے نیچے دل بچھا کر بھی وہ اہتمام شوق کی تشنگی محسوس کرتا ہے(لالہ زار علامہ
ارشاد القادری ۔ص،۱۴۷) 

         (اکابرین دیوبندکی نظر میں )

مولوی اشرف علی تھانوی تھانہ بھون دیوبند:

  مفتی محمد حسن خلفیہ اعظم تھانوی صاحب نے فرمایا کہ حضرت تھانوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مجھ کو مولوی احمد رضا خانصاحب بریلوی کے پھیچے نماز پڑھنے کا موقع ملتا تو میں پڑھ لیتا (معارف رضا کراچی شمارہ  یازدہ ہم ،انٹر نیشنل ایڈ یشن،ص۲۵۰)(بحوالہ ’’چٹان‘‘لاہور،۱۲۳۔اپریل ۱۹۶۲ء  )

مولانا ادریس کا ندھلوی :

مولانا کوثر نیازی فرماتے ہیں ۔’’میں نے صحیح بخاری کا درس مشہور دیوبند ی  عالم شیخ الحد یث حضرت مولانا محمد ادریس کا ند ھوی سے لیا ہے ۔کبھی کبھی اعلحضرت کا ذکر آجاتا تو مولاناکاندھلوی فرمایا کرتے ’’مولوی صاحب ‘‘(اورمولوی صاحب ان کا تکیہ کلام تھا )مولانااحمد رضا خان کی بخشش تو انہی فتووں کے سبب ہو جائیگی ۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا !احمد رضا تمہیں ہمارے رسول ﷺسے اتنی محبت تھی کہ اتنے بڑے بڑے عالموں کو بھی تم نے معاف نہیں کیا ۔تم نے سمجھا کہ انہوں نے تو ہین رسول ﷺکی ہے تو ان پر بھی کفر کا فتوی لگا دیا ۔جائو اسی ایک عمل پرہم نے تمہاری بخشش کردی ۔(معارف رضا کراچی شمارہ یازد ہم ، انٹر نیشنل ایڈیشن ۔ ص۲۵۱)     

      دیوبند ی عالم کوثر نیازی ،وزیر اطلاعات :

مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفع دیوبندی سے میں نے سنا ،فرمایا ،جب حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب علیہ الر حمہ کی وفات ہوئی تو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کو کسی نے آکر اطلاع کی ۔مولانا تھانوی نے با اختیار دعا کیلئے ہاتھ اٹھادئے جب وہ دعا کر چکے تو حاضرین مجلس میں سے کسی نے پوچھا وہ تو عمر بھر آپ کو کافر کہتے رہے  اور آپ ان کیلئے دعا ئے مغفرت کررہے ہیں ۔فرمایا اور یہی بات سمجھنے کی ہے مولانا احمد رضا خان نے ہم ہر کفر کے فتوے اس لئے لگا ئے کہ انہیں یقین تھا کہ ہم نے تو ہین رسول ﷺ کی ہے اگر وہ یہ یقین رکھتے ہوئے بھی ہم پر کفر کا فتویٰ نہ لگاتے تو خود کا فر ہوجاتے ۔(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی ایک ہمہ جہت شخصیت صفحہ ۷،طبع نارووال ،روزنامہ جنگ لاہور ۱۳ ۔ اکتوبر ۱۹۹۰ ء و ۱۹۸۱ء) 

مولوی ابوالحسن علی الحسنی الندوی:

   علماء حجاز سے بعض فقہی وکلامی مسائل  میں مذاکرہ و تبادلہ خیالات کیا ۔حرمین کے اثناء قیام میں انہوں نے بعض رسائل لکھے اور علماء حر مین کے پاس سے آئے سوالات کے جوابات دئے ۔وہ  حضرات آپ کے وفور علم ،فقہی متون اختلافی  مسائل پر وقت نظر ووسعت معلومات سرعت تحریر  اور ذکادت طبع سے حیران رہ گئے ۔پھر وہ ہندستان واپس ہوکر رونق مسند افتا ہوئے اور اپنے مخالفوں کے جواب میں بہت ساکام کیا ۔وہ نہایت کثیر المطالعہ ،وسیع  المعلو مات اور متجر عالم تھے۔رواں دواں قلم کے مالک اور تصنیف و تالیف میں جامع فکر  کے حامل تھے ۔فقہ حنفی اور اس کی جزئیات پر معلومات کی حییثت سے اس زمانہ میں ان کی نظیر نہیں ملتی ۔ان کے فتاویٰ اور کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس  الدراہم (۱۳۲۳ء مکہ مکرمہ )اس پر شاہد عادل ہیں ۔علوم ریاضی ،ہیئت ،نجوم ،توقیت ،رمل ،جفر میں انہیں مہارت تامہ حاصل تھی ۔(ص۴۱،جلد ثامن،نزہتہ الخواطر مطبوعہ دائر ۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد ۱۹۷۰ء) 
  تبلغی جماعت ، مولانا محمد الیاس صاحب :
  اگر کسی کو محبت رسول ﷺسیکھنی ہو تو مولانا بر یلوی سے سیکھے (معارف رضا کراچی ،شمارہ یازد ہ، انٹر نیشنل ایڈیشن ص۲۵۵ ترک موالات ص،۱۰۰ )

مفتی انتظام اللہ شہابی:

حضرت مولانا احمد رضا خان مرحوم  اس عہد کے چوٹی کے عالم تھے ،قاموس الکتب اردو ،جو ڈاکٹر مولوی عبد الحق صاحب کی نگرانی میں مرتب کی گئی ہے ۔اس میں 
مولانا کی کتب کاذکر کیا اور اس پر نوٹ بھی لکھے ۔مولانا کا نعتیہ کلام پر اثر ہے ‘  میر دوست ڈاکٹر سراج الحق پی ؛ہچ ۔ڈی ۔تو مولانا کے کلام کے گرویدہ ہیں اور مولانا  کو عاشق  رسول ﷺ سے خطاب کرتے ہیں ۔(معارف رضا کراچی ،شمارہ یازدہ، انٹر نیشنل ایڈ یشن   ص ،۲۵۹   بحوالہ فا ضل  بر یلوی اور ترک  موالات ،ڈاکٹر محمد مسعود احمد مظہری  ص،۱۰۰)  
  


   ’’مفکر وں دانشوروں کی نظر میں ‘‘ 

مولانا ابوالکلام آزاد:

مولانا احمد رضا خان ایک سچے عاشق رسول گذرے ہیں ،میں تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ان سے توہین نبوت ہو ‘‘(بحوالہ امام احمد رضا ارباب علم دانش کی نظر میں ،مولانا یسٰین اختر مصباحی ص،۹۸)
ماہر رضویات ،پر وفیسر ،ڈاکٹر محمد مسعود احمد مظہری :
شعرائے اردو کے تذکر ے چھوٹے  موٹے شاعروں سے بھر پڑے ہیں مگر جس کا ذکر کیا جانا چائیے تھا نہ کیا گیا ،شاعروں نے اس لئے چھوڑا کہ وہ عاشق صادق تھا  وہ کسی کا شاگر د نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور علما ئے نے اس لئے چھوڑا کہ وہ سچی محبت کی بات کرتا تھا ،وہ اپنے محبوب کا فدا کا راور جانثار تھا ،سیا ستدانو ں نے اس لئے چھوڑا کہ وہ جذبات کی رو میں نہیں بہتا تھا ،وہی کہتا تھا جو اس کا مولیٰ کہتا تھا ،اور اپنوں نے اس لئے چھوڑا کہ وہ صف سے باہر نکل کر حملے کیا کرتا تھا ،وہ صف در وصف شکن تھا ،وہ غلام حیدر کرار تھا ،غرض سب نے چھوڑا مگر اس کے رب نے اس کو نہ چھوڑا ،اس کے محبوب نے اس کو نہ چھوڑا ،ہاتھ پکڑااور ایسا اٹھایا ،کہ پاک و ہند کے گلی کو چے اس کے نغموں سے گونج گئے ۔ (تحقیقات ،مفتی محمد شریف الحق ص،۱۷)

ڈاکٹر سید عبد اللہ پنجاب یو نیو ر سٹی لاہور : 

یہ عشق رسول کا فیضان تھا کہ ان کے دل میں سوزو گداز ،ان کی نظر میں حیا ان کی عقل میں سلا متی اور ان کے اجتہاد میں ثقاہت واصابت ،اور ان کی زبان میں تاثیر اور ان کی شخصیت میں اثر ونفوذ تھا وہ جوکہتے تھے کرتے تھے ،اور جو کرتے تھے اس میں عشق رسول کو جھلکیاں صاف نظر آتی ہیں ۔یہ عشق رسول ہی تھا۔جس نے انہیں سنت حسنہ کے احیاء میں عمر بھر سر گرم عمل رکھا (عاشق رسول ،پر وفیسر محمد مسعود احمد مظہری ۔ ص،۴۰۳)
ڈاکٹر مختار الدین احمد آرزو مسلم یو نیو سٹی  علی گڈھ:
آپ کی ذات  الحب فی اللہ وا لبغض  فی اللہ کی زندہ تصویر تھی ،اللہ و رسول ﷺسے محبت کرنے والے کو  اپنا عزیز سمجھتے ،اور اللہ ورسول کے دشمن کو اپنا دشمن سمجھتے ،اپنے مخالف سے کبھی کچھ خلقی سے پیش نہ آتے ،کبھی دشمن سے سخت کلامی نہ فرمائی بلکہ حلم سے کام لیا ۔لیکن دین کے دشمن سے کبھی نرمی نہ برتی ،اعلی حضرت کی زندگی کا ہر گوشہ اتباع سنت کے انوار سے منور ہے (دبستان رضا ،مولانا یسین اختر مصباحی ۔ص۸۰)

پروفیسر یو سف سلیم چشتی:

مولانااحمد رضا خان بریلوی نے سرکار ﷺ کی بارگاہ میں جو سلام پیش کیا ہے اسے  یقینا شرف قبو لیت حاصل ہوگیا ،کیو نکہ ہند پاک میں شاید ہی کوئی عاشق رسول ایسا ہو جس نے اس کے دوچار شعر حفظ نہ کر لئے ہوں(ص،۳۱، ندائے حق جو نپور)
٭٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے