احمد رضا کا تازہ گلستاں ہے آج بھی Ahmed Raza Ka Taza Gulistan Hai Aaj Bhi

 احمد رضا کا تازہ گلستاں ہے آج بھی

(اویس یامین عطاری مدنی)

اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان  رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اپنی تحریر و تقریر سے برّعظیم (پاک و ہند) کے مسلمانوں کے عقیدہ و عمل کی اصلاح فرمائی، آپ کے ملفوظات جس طرح ایک صدی پہلے راہنما تھے، آج بھی مشعلِ راہ ہیں۔ دورِحاضر میں ان پر عمل کی ضرورت مزید بڑھ چکی ہے۔

اعلٰی حضرت، امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:

(1:(ذکرِ موت و ذکرِ قبر و ذکرِ آخرت و ذکرِ انبیاء و ذکرِ اولیاء عَلَیْہِمْ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالثَّنَاء سب ذکرِ الہٰی ہیں۔(فتاویٰ رضویہ مخرّجہ،ج 9،ص156)

(2):نماز کے مسائلِ ضروریہ کا نہ جاننا فسق (یعنی گناہ و جُرم) ہے۔(فتاویٰ رضویہ مخرّجہ ،ج 6،ص523)

(3):جس نے قصداً (یعنی جان بوجھ کر) ایک وقت کی نماز چھوڑی ہزاروں برس جہنم میں رہنے کا مستحق ہوا۔(فتاویٰ رضویہ مخرّجہ ،ج 9،ص158)

(4):گھڑی بھر کا تفکر (یعنی سوچ و بچار)انسانوں اور جِنّوں کی عبادت سے بہتر ہے۔(فتاویٰ رضویہ مخرّجہ ،ج 9،ص151)

(5):خرابیوں کے اسباب دور کرنا خوبیوں کے اسباب حاصل کرنے سے زیادہ اہم ہے۔(فتاویٰ رضویہ مخرّجہ ، ج9،ص551)

(6):لوگوں کی تالیفِ قلبی (یعنی دل جوئی کرنے) اور ان کو مجتمع (یعنی جمع) رکھنے کے لیے افضل (کام) کو ترک کرنا انسان کے لیے جائز ہے تاکہ لوگوں کو نفرت نہ ہو جائے۔(فتاویٰ رضویہ مخرّجہ ،ج 7،ص680)

(7):پیر پر طعن و تشنیع (یعنی بُرا بھلا کہنا) اِرتدادِ طریقت (یعنی طریقت سے پِھر جانا) ہے اس سے خلافت دَرکنار (یعنی خلافت تو ایک طرف رہی) بیعت سے بھی (انسان) خارج ہوجاتا ہے۔(فتاویٰ رضویہ مخرّجہ ،ج 6،ص551)

(8):جماعت میں بَرَکت ہے اور دعائے مَجْمَعِ مُسْلِمِیْن اَقْرَبْ بَقَبُوْل (یعنی مسلمانوں کے مجمع میں دعا مانگنا قبولیت کے قریب تر ہے۔)(فتاویٰ رضویہ،ج 24،ص184)

(9):جو اپنے نفس پر اعتماد کرے اس نے بڑے کذّاب (یعنی بہت بڑے جھوٹے) پر اعتماد کیا۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص 454)

(10):جب فعل کے سنّت اور مکروہ ہونے میں شک ہو تو اس کا ترک (یعنی چھوڑ دینا) بہتر ہوتا ہے۔(فتاویٰ رضویہ مخرّجہ،ج 8،ص303)

(11):جو مظلوم کی داد رَسی (یعنی اِنصاف) پر قادِر ہو اور نہ کرے تو اس کے لئے ذِلّت کا عذاب ہے۔(فتاویٰ رضویہ،ج 24،ص347)

(12):ہر مسلمان پر فرضِ اعظم ہے کہ اللہ (عَزَّوَجَلَّ) کے سب دوستوں سے محبت رکھے اور اس کے سب دشمنوں سے عداوت رکھے۔یہ ہمارا عین ایمان ہے۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص 276)




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے