Uljhanoun ke ‏dour ‎me ‎rahat ‎ka ‎naam ‎hai ‎imam ‎ahmed ‎raza

الجھنوں کے دور میں راحت کا نام ہے "امام احمد رضا خان" علیہ الرحمہ 
از: افتخار الحسن رضوی 

نظریات اور عقائد کا تحفظ بہت بڑا ہدف اور چیلنج ہے۔  یہ اس قدر حساس و نازک معاملہ ہے کہ  بڑے بڑے عالم، فاضل، جید ، دانشور اور علم و  تحقیق والے حضرات پھسل جاتے ہیں۔  مجھے اپنی ذاتی زندگی میں اس تعلق سے متعدد خطرات و خدشات پیش رہے ہیں۔     میں ایک سیلانی طبیعت کا سادہ مسلمان ہوں جسے ہر ملک، ریاست اور علاقے کے لوگوں کے نظریات جاننے کا بہت شوق ہے۔ کشمیری   وپاکستانی  پس منظر  رکھتا ہوں، اس لیے دیگر ایشیائی مسلمانوں کی طرح مجھے بھی "تبدیلی" جلد قبول کرنے کی عادت رہی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ احساس  محرومی و کمتری جاتا رہا۔  کچھ یہی احوال عقائد و نظریات سے متعلق بھی رہے۔ مثلاً  دس بارہ سال قبل مصری علماء نے عقیدہ حیاۃ النبی ﷺ، علمِ غیب اور بعض کلامی مسائل پر  دلائل کے ایسے انبھار لگا ئے کہ مجھے اپنی فکر کمزور  نظر آنے لگی۔ 
اسطنبول میرا دوسرا گھر اور دل و جان سے عزیز ہے۔ اس شہر میں موجود ہر اچھی نسبت و فکر سے مجھے محبت ہے۔  اجمیر کے جدید رفض و تفضیل کے کھچڑے اس شہر میں بھی پہنچ چکے ہیں۔ ایک بہت عزیز ترک عالم و شیخ  جو انجانے میں اجمیر  کے روافض کی چادر گلے میں ڈال چکے ہیں، ان کی خانقاہ پر  خلفائے راشدین  کے ساتھ سیدہ فاطمہ  و حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے اسماء گرامی لکھے ہوتے تھے۔ پھر ایک مجلس میں دیکھا کہ خلفائے راشدین کے اسمائے گرامی حذف کیے جا چکے ہیں اور فقط پنج تن  کے اسمائے گرامی باقی رکھے گئے ہیں۔ معاذ اللہ ۔ 
اول ملوک اسلام   سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بابت  مجھے شدید الجھنیں رہیں۔   مراکش، لبنان، اردن، حجاز مقدس، یمن اور ترکی کے علماء کی مختلف آراء دیکھیں۔ شاید آپ قارئین نے ناصبیوں کا فقط ذکر سنا ہو، میں نے اپنی آنکھوں سے ناصبی دیکھے، سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کی واضح مخالفت کرتے ہوئے دیکھا، یزید کو امیر المؤمنین کہنے والوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دوسری جانب کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو  بآواز بلند گالیاں دینے والوں کو بھی دیکھا۔ دونوں طرح کے مشائخ اپنے ہاں ہزاروں کا مجمع اور ہزاروں محبین رکھتے ہیں۔ میرا دل مغموم ہوتا کہ ایک سادہ مسلمان کس طرف جائے۔ 
"اعتدال پسندی" اور نرم خوئی کی اس راہ میں کئی بار مجھے یہاں تک بھی احساس دلانے کی کوشش کی گئی کہ  امام احمد رضا علیہ الرحمہ ایک متشدد و متعصب شخصیت کا نام ہے، آپ اپنی نسبت تبدیل کر لیں۔ لیکن مجھے اپنے شیخِ کامل عطائے غوث و رضا، نائب محدثِ اعظم پاکستان مولانا ابو محمد، محمد عبد الرشید رضوی علیہ الرحمہ  کا وہ جملہ کبھی نہیں بھولتا "اعلٰی حضرت کی غلامی مت چھوڑنا، فتنے اور بد عقیدگی کے اس دور میں یہی محفوظ رستہ ہے"۔   
ایک بار کسی معاملہ میں استاذی و مرشدی علیہ الرحمہ  کے سامنے مکتوبات سیدنا مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کا ذکر آیا۔ میں نے اس میں سے کوئی عبارت پیش کی۔ آپ علیہ الرحمہ خاموش رہے، کسی قسم کا ردِ عمل نہ دیا۔  بعد عشاء  مسجد شریف کے ساتھ بیٹھ کر آپ مطالعہ فرمایا کرتے تھے، وہیں پر آپ کی   قبر  شریف بنی ہوئی ہے، میں نے وہی مسئلہ پھر پیش کیا تو فرمانے لگے "بندہ خدا، اللہ کی توفیق سے تصنیفات امام احمد رضا علیہ الرحمہ میں  ہمیشہ آپ کے مسائل کا حل ملے گا، اگر نہ ملے تو پھر آپ دیگر علماء کی کتب بھی دیکھ سکتے ہیں"۔ 
واہ اے صاحبِ رشد و ہدایت، اللہ کی کروڑوں رحمتیں ہوں آپ کی تربت پر، یہ جملہ میرے لیے مشعلِ راہ بن گیا۔  اس دن سے آج  تک،  فقہی مسائل سے لے کر اعتقادی و کلامی مسائل تک، مجھے کوئی بھی علمی چیلنج درپیش ہو تو میں اپنے امام علیہ الرحمہ کی کتب میں ان کا حل تلاش کرتا ہوں۔ درجنوں بار ایسا ہوا کہ وہ عبارات یا ابواب میں پہلے پڑھ چکا ہوتا ہوں، لیکن کسی خاص تناظر میں پڑھنے سے مزید عقدے کھل جاتے ہیں، شرحِ صدر عطا ہوتا ہے۔ 
کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ  موجودہ فتنہ جو "امیر یزید"، سیاست امیر معاویہ، صحابہ کرام پر  تبراء و تنقید اور دیگر فحش و حرام گفتگو کی وجہ سے آپ کے ذہن میں جو سوالات موجود ہیں ان سب کا مناسب، معتدل اور مبنی بر حق جواب  امام المسلمین، حجۃ الاسلام، شیخ الاسلام،  مجدد دین سیدی شاہ احمد رضا علیہ الرحمہ  عطا فرما چکے ہیں۔  اگر آپ ایک عادل مسلمان ہیں تو میرے امام کے فتاوٰی پڑھ کر آپ کو سکون و قرار عطا ہو جائے گا۔ 
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  سے متعلق اہل سنت کے چودہ سو سالوں کے  افکار و نظریات کا نچوڑ امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے یوں بیان فرمایا؛ 
"حضرت امیر معاویہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ کو حضور پُر نور امیر المومنین مولی المسلمین سید نا ومولٰنا علی المرتضیٰ کرم اﷲتعالیٰ وجہہ الاسنی سے کہ فرقِ مراتب بے شمار اور حق بدست حیدر کرار، مگر معاویہ بھی ہمارے سردار، طعن اُن پر بھی کارِ فجّار، جو معاویہ کی حمایت میں عیاذباﷲاسد اﷲ کے سبقت واولیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ نا صبی یزیدی، اور جو علی کی محبت میں معاویہ کی صحا بیت و نسبت بارگاہِ حضرت رسالت بُھلادے وہ شیعی زیدی، یہی روشِ آداب بحمد اﷲتعالےٰ ہم اہلِ توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے"۔ 
(فتاوٰی رضویہ،  جلد 10،  مسئلہ نمبر 79)
خود کو رب تعالٰی کی عدالت میں کھڑا کریں، اپنے ضمیر سے پوچھیں، کیا اس سے بہتر فکر ، نظریہ اور جواب ہو سکتا ہے؟ اگر ممکن ہے تو اس سے جامع   جواب کوئی لا کر دکھائے۔ 
افتخار الحسن رضوی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے