Imam Ahmed Raza Aur Dawat Wa Tableegh > Allama Toufeeq Ahmed Barkati

امام احمد رضا اور دعوت و تبلیغ

از: توفیق احمد برکاتی مصباحی، ممبئی


مجدّدِ اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی علیہ الرحمۃ والرضوان (۱۲۷۲ھ/۱۳۴۰ھ) کی ہمہ جہت ذات اور قابلِ قدر شخصیت کسی تعارف و تبصرے کی محتاج نہیں۔ آپ نے پوری زندگی دین کی ترویج و اشاعت کے لیے وقف کردی، پژمردہ قلوب میں عشقِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا چراغ جلایا، شعائرِ اسلام کے تحفظ و بقا کی خاطر قلمی جہاد کیا، اُمّتِ مسلمہ کے عقاید کو استحکام عطا کیا، خدا و رسول کی ذات پر، معمولاتِ اہل سُنّت پر اور مسلّمہ عقاید پر ہونے والے حملوں کا بھرپور دفاع کیا اور دلائل و شواہد کی روشنی میں احقاقِ حق و ابطالِ باطل کا فریضہ انجام دیا۔ آپ کے علمی و فقہی کارہاے نمایاں اور دینی و ملّی خدماتِ جلیلہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ جن پر عالمی جامعات میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔  ۱؎
 آپ کی آفاقی شخصیت کے نت نئے گوشے سامنے آرہے ہیں۔ تابندہ نقوش سے عالمِ اسلام بہرہ ور ہورہا ہے۔  ۲؎
 مذہب کے فروغ و ابلاغ میں امام احمد رضا کی تعلیمات اور عالم گیر ذات سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ جس کی خوش نما اور رنگا رنگ کرنوں سے پوری دنیاے اسلام رہنمائی حاصل کررہی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد نقش بندی رقم طراز ہیں: 
’’امام احمد رضا کی ذات ایک بحرِ ذخّار اور روشن آفتاب و ماہتاب ہے جس کی موجوں اور شعاعوں کا شمار ممکن نہیں۔ ‘‘  ۳؎ 
حضرت علامہ سید آلِ رسول حسنین میاں نظمی مارہروی فرماتے ہیں: 
’’امام احمد رضا علیہ الرحمۃ والرضوان کا یہ کمال نہیں کہ وہ علومِ عقلیہ و نقلیہ کے ماہر تھے، یہ بھی کمال نہیں کہ وہ بہت بلند پائے کے فلسفی تھے، یہ بھی کمال نہیں کہ ریاضی و ہئیت کے داناے راز تھے، یہ بھی کمال نہیں کہ فقہ کے اُفق کے درخشاں آفتاب تھے، یہ بھی کامل 
نہیں کہ عربی، فارسی، اردو اور ہندی میں اچھی شاعری کرتے تھے۔ کمال تو یہ ہے کہ وہ ان تمام خوبیوں کے جامع تھے جو انفرادی طور پر دوسرے لوگوں میں شانِ افتخار اور اولو العزمی کا سبب بنا کرتی ہیں۔‘‘  ۴؎
دعوت و ارشاد کی حقیقت، اس کا حقیقی مفہوم، اسلوبِ دعوت اور اس کے بنیادی نکات امام احمد رضا کی نگاہ میں کیا تھے، آپ کی تعلیمات سے کیا اشارہ ملتا ہے، اس کی اہمیت و افادیت کے تعلق سے آپ نے کیا نظریہ پیش کیا؟ زیر نظر مضمون میں ان تمام باتوں پر قدرے تفصیلی بحث کی گئی ہے۔
دعوت و تبلیغ ایک عظیم مذہبی فریضہ ہے جو ایمان والوں پر خدا وند قدس کی جانب سے تفویض ہوا ہے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات اوراحادیث اس پر شاہد ہیں، خود امت محمدیہ کی افضلیت وبرتری اور شان وعظمت کی وضاحت میں قرآن کریم میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر جیسی صفات کا استعمال ہوا۔ ۵؎ انبیاے کرام و رسلانِ عظام کی بعثت و تشریف آوری کا مقصد دعوت الی الحق ہی تھا۔  ۶؎
بقدر استطاعت گرد و پیش پھیلے ہوئے منکرات کا قلع قمع اور خلافِ شرع امور کا انسداد اور قوم کی مناسب رہنمائی بہت ضروری ہے۔
اعلیٰ حضرت قدس سرہ فرماتے ہیں: ’’ازالۂ منکر بقدر قدرت فرض ہے۔‘‘  ۷؎
مزید فرماتے ہیں : 
’’امر بالمعروف ونہی عن المنکر ضرور بنصوص قاطعہ قرآنیہ اہم فرائض دینیہ سے ہے اور بحال وجوب اس کا تارک آثم وعاصی اور ان نافرمانوں کی طرح خود بھی مستحق عذاب دنیوی واخروی۔ احادیث کثیرہ اس معنی پر ناطق ہیں۔‘‘  ۸؎
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’یوں نہیں خدا کی قسم یا تو تم ضرور امر بالمعروف کروگے، ضرور نہی عن المنکر کروگے۔ یا ضرور اللہ تعالیٰ تمہارے دل ایک دوسرے پر مارے گا، پھر تم سب پر اپنی لعنت اُتارے گا جیسی ان بنی اسرائیل پر اتاری۔‘‘  ۹؎ 
دعوت وتبلیغ کی اہمیت وافادیت و ضرورت مسلّم تو ہے ہی، اس سے زیادہ اہمیت اُن لازمی امور کی ہے جن کی بجا آوری اس عمل میں بے حد ضروری ہے۔ یہ میدان بڑا دشوار گذار اور پُر آشوب ہے جس میں حکیمانہ طرزِ عمل اور ناصحانہ اسلوبِ بیان اختیار کرنا، نیز عصری تقاضوں کو پیش نظر رکھنا اور بہترین تدابیر کو عمل میں لانا بہت ضروری ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے: ’’اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤپکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے‘‘  ۱۰؎
یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف کے اندر حکم دیا گیا کہ تبلیغ سامعین کے حال کے مطابق ہونی چاہیے۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ نے فتاویٰ رضویہ میں اس طرز کی کئی احادیث ذکر کی ہیں۔  ۱۱؎
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب تو کسی قوم کے آگے وہ باتیں بیان کرے گا جن تک ان کی عقلیں نہ پہنچیں تو ضرور وہ ان میں کسی پر فتنہ ہوں گی۔‘‘  ۱۲؎
دین کی ترویج واشاعت میں حکمت وموعظت، نرمی وملائمت، خوش اخلاقی ونرم خوئی کو روح کا درجہ حاصل ہے اس لیے کہ سنجیدہ گفتگو دل پذیر ہوتی ہے اور اذہان خود بخود اس کی طرف جھکتے ہیں۔ اس کے بر خلاف غیر سنجیدہ جذباتی اور تشدد پسندانہ طرز تکلم سے کام بننے کی بجائے بگڑ جاتا ہے اور اس سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
نرمی کے فواید کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: 
’’دیکھو نرمی کے جو فوائد ہیں وہ سختی میں ہرگز حاصل نہیں ہوسکتے۔اگر اس شخص سے سختی برتی جاتی تو ہرگز یہ بات نہ ہوتی۔جن لوگوں کے عقائد مذبذب ہوں ان سے نرمی برتی جائے کہ وہ ٹھیک ہوجائیں یہ جو وہابیہ کے بڑے بڑے ہیں ان سے بھی ابتدائً نرمی برتی گئی۔‘‘  ۱۳؎
اپنے ایک فتویٰ میں تحریر کرتے ہیں:
’’مقاصد شرع سے ماہر خوب جانتا ہے شریعت مطہرہ رفق وتیسیر پسند فرماتی ہے، نہ معاذ اللہ تضییق و تشدید۔‘‘  ۱۴؎
لوگوں کو برائیوں سے منع کرنے اور نیک باتوں کا حکم دینے میں حدود اللہ کی رعایت اور اس کا پاس و لحاظ ناگزیر ہے، بے جا تشدد اور تعصب زدہ اسلوب بیان سخت نقصان کا پیش خیمہ ہے۔
فرماتے ہیں: 
’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر عمدہ تمغاے مسلمانی ہے۔ اس نیک کام میں بہت لوگ حدودِ خداوندی کا خیال نہیں رکھتے اور تشدد و تعصب کو یہاں تک نباہتے ہیں کہ ان کا گناہ ان جاہلوں کے گناہ سے بدرجہا زائد ہوجاتاہے، جن کے لیے یہ ناصح مشفق بنے تھے۔‘‘  ۱۵؎ 
والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید قرآن وحدیث میں واضح الفاظ میں کی گئی ہے۔ ان کی دلداری اور اطاعت بہر حال لازم ہے۔ ہاں اگر یہ دل داری اور فرماں برداری شرعی امور میں حائل ہو تو جائز نہیں۔ ماں باپ اگر خلافِ شرع کام بھی کریں تو انہیں اس سے روکنے اور باز رکھنے کے لیے سختی سے پیش آنے کی ممانعت ہے بلکہ نرمی اور ان کا ادب و احترام بہر صورت ضروری ہے۔ اس حقیقت کی نشان دہی کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’امر و نہی میں والدین سے سخت کلامی جائز نہیں۔‘‘ ۱۶؎
ایک دوسرے فتویٰ میں تحریر کرتے ہیں:
’’اطاعتِ والدین جائز باتوں میں فرض ہے اگرچہ وہ خود مرتکب کبیرہ ہوں، ان کے کبیرہ کا وبال ان پر ہے مگر اس کے سبب یہ اُمور جائزہ میں ان کی اطاعت سے باہر نہیں ہوسکتا، ہاں اگر وہ کسی ناجائز بات کا حکم کریں تو اس مین ان کی اطاعت جائز نہیں لا طاعۃ لاحدٍ فی معصیۃاللہ تعالیٰ، ماں باپ اگر گناہ کرتے ہوں ان سے بہ نرمی وادب گذارش کرے، اگر مان لیں بہتر ورنہ سختی نہیں کرسکتا، بلکہ غیبت میں ان کے لیے دعا کرے۔‘‘  ۱۷؎ 
انسدادِ جرائم و دفع منکرات میں جہاد کافی موثر ذریعہ ہے اور منکر کے ازالے میں بہت اہم رول ادا کرتا ہے۔ امام احمد رضا قادری قدس سرہٗ جہاد کی تقسیم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جہاد کہ اعظم وجوہ ازالہ منکر ہے اس کی تقسیم تین اقسام پر ہے: سنانی، لسانی، جنانی یعنی کفر و بدعت، فسق کو دل سے برا جاننا، یہ ہر کافر، مبتدع و فاسق سے ہے اور ہر مسلمان کہ اسلام پر قائم ہو اسے کرتا ہے۔ مگر جنہوں نے اسلام کو سلام اور اپنے آپ کو کفار ومشرکین کا غلام کیا ان کی راہ جدا ہے، ان کا دین غیر دین خدا ہے۔ اور لسانی کہ زبان و قلم سے ردّ بحمدہٖ تعالیٰ خادمانِ شرع ہمیشہ سے کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہو تو دمِ آخر تک کریں گے، وہابیہ، نیاچرہ، دیوبندیہ، قادیانیہ، روافض، غیر مقلدین، ندویہ، آریہ، نصاری وغیرہم کا ردّ کیا اور اب گاندھویہ سے بھی وہی برسر پیکار ہیں۔ حق کی طرف بلاتے اور باطل کو باطل کر دکھاتے ہیں اور مسلمانوں کو گمراہ گروں سے بچاتے ہیں وللّٰہ الحمد آگے ہدایت رب عزوجل کے ہاتھ ہے۔الخ‘‘  ۱۸؎
اس اہم اور پُر اثر کام میں اپنے معمولات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دفع گمراہان میں جوکچھ اس حقیر میرز سے بن پڑتا ہے بحمداللہ تعالی ۱۴ برس کی عمر سے اس میں مشغول ہے اور میرے رب کریم کے وجہ کریم کو حمد کہ اس نے میری بساط، میرے حوصلے، میرے کاموں سے ہزاروں درجہ اس سے زائد نفع بخشا۔‘‘  ۱۹؎
آپ نے پوری زندگی اشاعتِ دین ومذہب میں گذاردی، بد مذہبوں کا رد بلیغ کیا، ہزار سے زائد کتب و رسائل تصنیف کیے، تحریر و تقریر اور وعظ و نصیحت بلکہ اپنے کرداروعمل، معمولات و تعلیمات کے ذریعہ مذہبِ اسلام کی بیش بہا خدمات انجام دیں اور ہمیشہ ہر وقت فکرِ اُمت میں لگے رہے۔ دین کی اشاعت کے لیے خاطر خواہ کام نہ ہونے کی وجہ سے اپنا درد دل کچھ یوں بیان کیا:
 ’’بڑی کمی اُمرا کی بے توجہی اور روپے کی ناداری ہے۔ حدیث کا ارشاد صادق آیا کہ ’’وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ دین کا کام بھی بے روپیہ کے نہ چلے گا ‘‘ کوئی عالی شان مدرسہ تو آپ کے ہاتھ میں ہے نہیں، کوئی اخبار پرچہ آپ کے یہاں نہیں۔ واعظین، مدرسین، مناظرین، مصنفین کی کثرت بقدرِ حاجت آپ کے پاس نہیں، جو کچھ کرسکتے ہیں فارغ البال نہیں، جو فارغ البال ہیں وہ اہل نہیں، بعض نے خونِ جگر کھاکر تصانیف کیں تو چھپیں کہاں سے، کسی طرح سے کچھ چھپا تو اشاعت کیوں کر ہو۔‘‘  ۲۰؎
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری نے خود اپنے طرزِ عمل اور مدبرانہ تفہیم کے ذریعہ نظریۂ دعوت کو آشکار کیا اور سامنے والے کی نفسیات کو پرکھ کر تبلیغ دین کے لیے زاویے متعین فرمائے۔ ایک سید صاحب کی اصلاح کا ایمان افروز واقعہ ملاحظہ ہو ! امام اہلِ سُنّت فرماتے ہیں: 
’’ایک صاحب سادات کرام میں سے اکثر میرے پاس تشریف لاتے اور غربت وافلاس کے شاکی رہتے، ایک مرتبہ بہت پریشان آئے۔ مَیں نے اُن سے دریافت کیا کہ جس عورت کو باپ نے طلاق دے دی ہو، کیا وہ بیٹے کو حلال ہوسکتی ہے؟ فرمایا، نہیں۔ حضرت امیر المومنین مولی علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم نے جن کی آپ اولاد ہیں تنہائی میں اپنے چہرہ مبارکہ پر ہاتھ پھیر کرارشاد فرمایا: اے دنیا! کسی اور کو دھوکہ دے، مَیں نے تجھے وہ طلاق دی جس میں کبھی رجعت نہیں، پھر ساداتِ کرام کا افلاس کیا تعجب کی بات ہے؟ سید صاحب نے فرمایا: واللہ میری تسکین ہوگئی، وہ اب زندہ موجود ہیں، اس دن سے شاکی نہ ہوئے۔ ‘‘  ۲۱؎
سوچیے غور کیجیے ! کس خوبصورت انداز تخاطب کے ذریعہ اعلیٰ حضرت نے سید صاحب کی اصلاح فرمائی اور دین کا پیغام دیا۔ یہ اسلوب دعوت اور طرز عمل آپ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ سے سیکھا جس میں سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوان کو زنا کے متعلق اجازت طلب کرنے کے سوال و استفسار پر اس کی قباحت وشناعت سے آشنا کرادیا اور شائستہ طرز عمل سے زنا کاری جیسے عظیم تر گناہ کو اس کی نگاہ میں ناپسندیدہ بنادیا۔ خود امام احمد رضا قدس سرہ نے اس عظیم تاریخی واقعہ کو بیان فرمایا:
’’ ایک شخص خدمتِ اقدس حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کی، یارسول اللہ! میرے لیے زنا حلال فرما دیجیے۔ صحابہ کرام نے انہیں قتل کرنا چاہا کہ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر یہ گستاخی کے الفاظ کہے۔ حضور نے منع فرمایا اور ان سے فرمایا، قریب آؤ، وہ قریب حاضر ہوئے۔ اور قریب فرمایا، یہاں تک کہ ان کے زانو زانوے اقدس سے مل گئے۔ اس وقت ارشاد فرمایا، کیا تو چاہتا ہے کہ کوئی شخص تیری ماں سے زنا کرے۔ عرض کی نہ، فرمایا، تیری بیٹی سے، عرض کی نہ، فرمایا، تیری بہن سے، عرض کی نہ، فرمایا، تیری پھوپھی سے، عرض کی نہ، فرمایا، تیری خالہ سے، عرض کی نہ، فرمایا کہ تو جس سے زنا کرے گا آخر وہ بھی کسی کی ماںیا بیٹییا بہن یا پھوپھی یا خالہ ہوگی یعنی جوبات اپنے لیے پسند نہیں کرتا دوسرے کے لیے کیوں پسند کرتا ہے۔ دستِ اقدس ان کے سینہ پر مار کر دعا فرمائی کہ الٰہی زِنا کی محبت اس کے دل سے نکال دے۔ وہ صاحب کہتے ہیں، جب میں حاضر ہوا تھا تو زِنا سے زیادہ محبوب میرے نزدیک کوئی چیز نہ تھی اور اب اس سے زیادہ کوئی چیز مجھے مبغوض نہیں۔‘‘  ۲۲؎
امام احمد رضا نے اس طرز کے اور واقعات اپنی کتب ورسائل میں تحریر کیے ہیں اور وعظ ونصیحت میں بیان فرمائے، جس سے یہ نظریہ اخذ ہوتا ہے کہ دعوت کی اہمیت کیا ہے اور اسلوبِ بیان اور موثر تدبیریں کتنا اثر رکھتی ہیں۔ اس لیے ہم پر لازم ہے کہ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے جو تعلیمات ہمیں عنایت فرمائی ہیں اقوامِ عالم کو ان سے روشناس کرائیں اور دعوت و تبلیغ کا جو نظریہ پیش کیا ہے اس کی روشنی میں اُمّتِ مسلمہ کی مناسب رہنمائی کریں۔

مــآخــذ
۱؎  ’امام احمد رضا اور عالمی جامعات‘ از پروفیسر محمد مسعود احمد
۲؎  ’حیاتِ رضا کی نئی جہتیں‘ از غلام جابر شمس مصباحی
۳؎  چشم و چراغِ خاندان برکاتیہ از پروفیسر محمد مسعود احمد
۴؎  مقدمہ ’کہی ان کہی‘ از: علامہ عبدالستّار ہمدانی، ص ۲
۵؎  آل عمران ۳۔آیت۱۱۰
۶؎  تفسیر ابن عباس ۲۹۵
۷؎  فتاویٰ رضویہ، ص۱۶۹، ج ۹ رضا اکیڈمی
۸؎  فتاویٰ رضویہ، ص ۲۱۵، ج۹ رضا اکیڈمی
۹؎  سنن ابو داؤدالملاح، ص ۵۹۶، ج ۲
۱۰؎  سورہ نحل۱۶۔آیت ۱۲۵
۱۱؎  جامع الاحادیث، ص ۱۹۴۔۱۹۳، ج۱
۱۲؎  جامع صغیر، امام سیوطی، ص ۴۷۹، ج ۲
۱۳؎  الملفوظ، حصہ اوّل ص ۳۲ رضا اکیڈمی
۱۴؎  فتاویٰ رضویہ، ص ۱۵۱، ج ۱۱  پوربندر
  فتاویٰ رضویہ، ص ۱۰۹، ج۱۱  رضا اکیڈمی
۱۶؎  فتاویٰ رضویہ، ص ۲۶۱، ج ۹  رضا اکیڈمی
۱۷؎  فتاویٰ رضویہ، ص ۲۶۱، ج ۹  رضا اکیڈمی
۱۸؎  رسالۃ المحجۃ الموتمنہ، ص ۹۴
۱۹؎  فتاویٰ رضویہ، ص ۱۳۳ ج ۱۲
۲۰؎  فتاویٰ رضویہ، ص ۱۳۳ ج ۱۲
۲۱؎  الملفوظ حصہ اوّل ص۶۳ رضا اکیڈمی
۲۲؎  الملفوظ حصہ اوّل ص ۳۲
٭٭٭٭٭٭ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے